پاکستان اور بھارت کے درمیان ابتدائی رابطے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے ابتدائی رابطے کا بنیادی مقصد انسانی بنیادوں پر واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارتی گندم اور ادویات کو افغانستان بھیجنا ہے۔بھارتی جریدے کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ذریعے انسانی امداد افغانستان بھیجنے کے لیے بھارت نے جو تجاویز اکتوبر میں دیے تھے ان کا پاکستان نے 24 نومبر کو جواب دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت انسانی بنیادوں پر واہگہ بارڈر کے ذریعے 50 ہزار ٹن گندم اور ادویات افغانستان بھیجنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اسی حوالے سے گفت و شنید ہو رہی ہے۔
بھارتی اخبار کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دیے جانے والے جواب کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ترجمان نے قوی امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اس ضمن میں کوئی شرط عائد نہیں کرے گا۔اخبار نے اس حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے بدھ کو سرکاری سطح پر بھارت سے کہا تھا کہ افغانستان کے عوام کے لیے پاکستان واہگہ بارڈ کے راستے امداد پہنچانے کی اجازت دے گا۔واضح رہے کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان فضائی رابطے بھی بحال نہیں ہیں کیونکہ فلائٹس بند ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے راستے افغانستان تک امداد پہنچانا سب سے آسان راستہ ہے۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے کچھ دن قبل خبردار کیا تھا کہ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ افغان باشندوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہو گا۔
افغانستان میں اس وقت بھی صورتحال بہت زیادہ گھمبیر ہے اور افغانستان کی نئی حکومت کی جانب سے باربار یہ کہاجارہا ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ بہترین تعلقات کے خواہش مند ہیں ان پر لگائی گئی پابندیوں کو ہٹاتے ہوئے امدادی رقم کا اجراء کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کی جائے تاکہ افغانستان میں معاشی تبدیلی آسکے گوکہ افغانستان میں اب تک امن وامان کی صورتحال اتنی بہتر نہیں ہے ،آئے روزواقعات رونما ہورہے ہیں مگر اس عمل کو روکنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ انسانی بحران سے افغانستان کو بچانے کے لیے بھارت اپنا کردار ادا کرے کیونکہ پاکستان کی جانب سے اول روز سے ہی یہی مؤقف سامنے آرہا ہے کہ خوشحال اور پُرامن افغانستان سب کے مفاد میں ہے خاص کر پاکستان ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے پہلے سے ہی افغان شورش سے بہت زیادہ متاثر ہوچکا ہے۔
اب امن اور خوشحالی کے ذریعے پاکستان پر بھی اس کے مثبت اثرات پڑینگے۔ اگر سنجیدگی سے معاملات کو نہیں لیاجائے گا یقینا انسانی بحران شدت اختیار کرجائے گا اور امن و امان کا ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگا پھراسے کس طرح سے حل کیاجائے گا ۔دہائیوں سے طاقت کے استعمال کے باوجود عالمی طاقتوں کو کیا حاصل ہوا کچھ بھی نہیں بلکہ مزید مسائل اور جانی نقصانات کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ افغانستان میں ایک اشتراکی حکومت کی تشکیل بہت ضروری ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی رضا مندی ہونی چاہئے تاکہ افغان طالبان جو اس وقت حکومت کرر ہے ہیں انہیں دنیا کے ساتھ بات کرنے کے لیے ثالث بھی مل جائینگے ۔ماضی کے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغان قیادت کو اپنی عوام کے مستقبل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے امید ہے کہ اس میں تمام فریقین فعال کردار اداکرتے ہوئے ایک پیج پر آئینگے اور ایک نئے افغانستان کی بنیاد رکھیں گے جہاں خوشحالی اور امن ہوگا۔