|

وقتِ اشاعت :   December 1 – 2021

حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ صوبے میں عمارتوں کو ریگولرائز کرنے کے حوالے سے آرڈیننس گورنر سندھ کو بھیج دیا جائے گا، جس کی منظوری کے بعد قانون نافذ ہوتے ہی انسداد تجاوزات مہم روک دی جائے گی اور اس کا فیصلہ کمیشن کرے گا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان حکومت سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کراچی میں عمارت کو گرادی جاتی ہے اور کمرشلائزیشن روک دی جاتی ہے لیکن یہ اسلام آباد میں بنی گالا میں کیوں نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ سوال پوچھاجاتا ہے کہ یہ کارروائی اسلام آباد میں ون کانسٹی ٹیوشنل ایونیو جو مرکزی شاہراہ جمہوریت کے اوپر ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کی گئی ہے اس پر کیوں نہیں ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے سپریم کورٹ نے ریگیولرائز کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی والے سوال پوچھتے ہیں کہ عثمان بزدار صاحب پنجاب میں ایک قانون لے کر آتے ہیں جس کے تحت اس طرح کی عمارتوں کو ریگیولرائز کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے جج کو تعینات کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوال ہم سے بھی پوچھا جاتا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سمیت تمام سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے اور کہتے ہیں اگر کسی غریب یا متوسط طبقے کے آدمی یا امیر آدمی نے بھی کاغذ دیکھ کر کسی عمارت میں پیسے لگائے ہوں اور گھر خریدا ہو تو اس سے 2 سال، 5 سال یا 10 سال بعد ان سے وہ چھت نہیں چھین سکتے ہیں۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ پی پی پی سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی نے ایک ہفتہ قبل سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی اور حکومت کو توجہ دلائی کہ اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے، جس میں شہریوں کی پریشانیوں کو کم کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ اس قرار داد میں ان اراکین نے کہا کہ جو تعمیرات پانی یا نالے کے اوپر ہیں اس کے خلاف بالکل کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ اس کے اثرات پورے شہر پر ہوتے ہیں لیکن اس کے علاوہ ایسے گھر، دکانیں اور عمارتیں جو بن چکی ہیں اور لوگ رہ رہے ہیں ان کو ہٹادیں تو پریشانی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قراردار صرف کراچی کے لیے نہیں بلکہ پورے سندھ کے لیے ہے کیونکہ کوئی قانون ایک عمارت اور ایک شخص کے لیے بنائیں گے تو کہا جائے گا کہ کسی کی ذات کو فائدہ پہنچا رہے ہیں لیکن قانون ساز اسمبلی کا کام ہوتا ہے کہ پالیسی بنائیں تو تجویز دی گئی کہ پورے سندھ میں آب پاشی کا نظام نہیں رہا تو وہاں پر اگر کوئی شخص عرصہ دراز سے رہ رہا ہے اور آپ اس کو ہٹا دیں گے تو پریشانی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید تھی قومی اور پورے صوبے کا مسئلہ بالخصوص کراچی کے مسئلے پر قرارداد اسمبلی میں آئے گی تو ساری جماعتیں اس کی حمایت کریں گی لیکن بدقسمتی ہے کہ جو لوگ نسلہ ٹاور پر کھڑے ہو کر بڑی بڑی پریس کانفرنس اور بڑے اعلانات تو کرتے ہیں لیکن جب اسمبلی میں کام کرنے کی باری آئی تو راہ فرار اختیار کرلی۔

ترجمان حکومت سندھ نے کہا کہ پی پی پی کراچی اور پورے صوبے کے عوام کے ساتھ کھڑی ہوئی اور اکثریت کے ساتھ اس قرارداد کو منظور کرایا، یہ قرارداد حکومت سندھ کے پاس آئی اور اب فیصلہ کیا کہ اس قرارداد کی روشنی میں قانون سازی کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی تیار کرلی گئی ہے، ڈرافٹ محکمہ قانون نے وزیراعلیٰ کو بھیج دیا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ آج وہ آرڈیننس گورنر سندھ کو بھیج دیں گے، اس امید کے ساتھ کہ گورنر اس کی توثیق کریں گے اور اس کو قانونی شکل دے دی جائے گی۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ جس طرح پنجاب میں قانون آیا ہے اسی طرح کا قانون سندھ میں آیا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ایک اضافی پیراگراف شامل کیا گیا ہے کہ جیسے ہی یہ قانون نافذالعمل ہوگا تو انسداد تجاوزات کی مہم کو روک دیا جائے گا جب تک اس کے بارے میں وہ کمیشن فیصلہ نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح پنجاب میں کمیشن بنایا گیا ہے اسی طرح سندھ میں کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی ہے، جس طرح پنجاب میں ایک ریٹائرڈ جج کمیشن کی سربراہی کریں گے اسی طرح سندھ میں بھی معزز ریٹائرڈ جج کمیشن کا سربراہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو دو نہیں ایک پاکستان کی بات کرتے ہیں، ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوگا، جو لوگ سڑک پر کھڑے ہو کر مجھے اور میری پارٹی کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن غریبوں کو بچانے کے لیے کبھی باہر نہیں آتے، وہ لوگ اس پر سیاسی رسہ کشی اور بے جاتنقید نہیں کریں گے۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ جیسے یہ آرڈیننس اسمبلی میں آئے گا تو وہاں سے منظور بھی کروائیں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں حکومتوں، ریاست اور اسمبلی کا کام عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے اور عوامی نمائندے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے عوام کے بہتر مفاد میں یہ فیصلہ کیا ہے تاکہ لوگوں کو اس مشکل وقت میں ریلیف دیا جاسکے اور اس ریلیف میں غریب، متوسط طبقہ اور اس میں چند امیر بھی آئیں گے۔

ترجمان حکومت سندھ نے کہا کہ ہم کم ازکم ایک نظام بناپائیں گے کہ اگر اسلام آباد اور پنجاب والوں کی ریگیولرائزیشن ہوسکتی ہے تو سندھ میں رہنے والوں کے لیے بھی قانون کے مطابق عمارتوں اور گھروں ریگیولرائزیشن ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں قانون بنانے کا طریقہ کار درج ہے اور قانون بنانے کا مقصد عوام کے بنیادی حقوق کاتحفظ کرنا ہوتا ہے اور آج حکومت سندھ نے اس کی ابتدا کرلی ہے اور امید ہے کہ ہمیں کام کرنے دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن فیصلہ کرے گا کہ کس طریقہ کار کے تحت اس کو ریگیولرائز کیا جائے یا ریگیولرائز نہ کیا جائے، ضروری نہیں ہے کہ ہر عمارت ریگیولرائز ہوگی، وہ جج اپنے اراکین کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر ایک گھر سرکاری کاغذات دیکھ کر خریدلیا جائے اور 10 سال بعد اس سے چھین لیا جائے تو نامناسب بات ہے، میں غلط فیصلہ کیا تھا اور میرے خلاف کارروائی کریں۔

انہوں نے کہا کہ نسلہ ٹاور کی زمین بنیادی طور پر حکومت سندھ نے الاٹ نہیں کی، سندھی مسلم کوآپریٹیو سوسائٹی ہمارے ماتحت کام نہیں کرتی، اس پراپرٹی کو 2007 میں کمرشلائز کیا گیا، اس وقت مصفطیٰ کمال ناظم کراچی تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمرشلائز کے بعد توثیق کے لیے بلڈنگ کنٹرول کے پاس آتی ہے اور انہوں نے منظوری دے دی، 2015 میں ایک شہری عدالت جاتا ہے اور سندھ ہائی کورٹ سے شکایت کرتا ہے کہ یہ عمارت غلط تعمیر ہورہی ہے اس کو روکا جائے لیکن عدالت نے کوئی اسٹے آرڈر نہیں دیا اور کوئی پابندی نہیں لگائی اور عمارت تعمیر ہوگئی۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ عمارت تعمیر ہونے کے بعد لوگ وہاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہے ہوں اور آج وہ چھت چھین لی جائے تو تکلیف ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ زمین بنیادی طور پر کے ایم سی کی ہے، 1986 میں اس زمین کے حوالے سے قانون سازی ہوئی اور 2010 میں سندھ ہائی کورٹ فیصلہ کرتا ہے کہ جس اضافی زمین پر جھگڑا ہے یہ سندھی مسلم کوآپریٹیو سوسائٹی کو ادائیگی کے بعد دے دی جائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں 16 جون کو 15 منزلہ عمارت گرانے کے لیے ابتدائی احکامات دیے تھے، جس کو سروس روڑ پر تعمیر کرنے پر تجاوزات قرار دیا تھا۔

بعد ازاں 19 جون کو تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور کے بلڈر کو حکم دیاتھا کہ وہ رہائشی اور کمرشل متاثرین کو تین مہینوں کے اندر ادائیگی کریں۔

جس کے بعد نسلہ ٹاور کے بلڈرز نے اپیل دائر کی جس کو گزشتہ ماہ مسترد کردیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 25 اکتوبر کو کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ وہ کنٹرول دھماکے کے ذریعے ایک ہفتے کے اندر نسلہ ٹاور گرادیں اور رپورٹ پیش کریں اور اس حوالے سے کمپنیوں کو بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے اخراجات سے آگاہ کریں اور ان میں سے دو کمپنیوں کو شارٹ لسٹ بھی کیا گیا تھا۔

ان حکامات کی روشنی میں ضلعی انتظامیہ نے نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کو نوٹسز جاری کیے تھے کہ وہ 15 منزلہ عمارت 27 اکتوبر تک خالی کریں ورنہ متعلقہ حکام کی جانب سے کارروائی کا سامنا کرنا پڑےگا۔

جس کے بعد تمام رہائشیوں نے 28 اکتوبر تک اپنے اپارٹمنٹس خالی کردیے تھے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں نسلہ ٹاور گرانے کا کام شروع کردیا گیا تھا جبکہ عدالت نے کمشنر کراچی کو احکامات کی بجاآوری میں ناکامی پر سرزنش کی تھی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے آج (جمعہ 26 نومبر کو) کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران کمشنر کراچی کو احکامات دیے ہیں کہ نسلہ ٹاور کو ایک ہفتے میں گرادیں۔