|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2021

سیالکوٹ میں 3 دسمبر کو اسپورٹس گارمنٹ کی فیکٹری کے غیر مسلم سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے مذہبی پوسٹر اتارنے کا الزام لگا کر حملہ کردیا، پریانتھا کمارا جان بچانے کیلئے بالائی منزل پر بھاگے لیکن فیکٹری ورکرز نے پیچھا کیا اور چھت پر گھیر لیا۔انسانیت سوز خونی کھیل کو فیکٹری گارڈز روکنے میں ناکام رہے، فیکٹری ورکرز منیجر کو مارتے ہوئے نیچے لائے، مار مار کر جان سے ہی مار دیا، اسی پر بس نہ کیا، لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری سے باہر چوک پر لے گئے، ڈنڈے مارے، لاتیں ماریں اور پھر آگ لگا دی۔پاکستان میں یہ انتہائی المناک واقعہ رونما ہوا ہے جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے۔ اس واقعے نے ایک المیہ پیدا کردیا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ کس قدر وحشت اور درندگی کی طرف جارہاہے کہ ایک انسان کو مارپیٹ کر ،پھر زندہ جلاکر اس کی ویڈیوزاور سیلفیاں لیتے رہے ۔

یہ ایک انتہائی بے حسی کی نشاندہی کرتا ہے ذہنی طور پر لوگ معذوری کی طرف جارہے ہیں۔جو اس گھناؤنے جرم میںملوث ہیں انہیں ہر حال میں سخت سزا دینی ہوگی کیونکہ دنیا بھر میں ملک کا ایک انتہائی منفی امیج گیا ہے اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیاگیا اور ملوث ملزمان کو کڑی سزا نہ دی گئی تو مستقبل میں اس کے بہت ہی بھیانک نتائج برآمد ہونگے ۔یہ ریاست کے لیے ایک ٹیسٹ کیس اور چیلنج ہے کہ کس طرح سے اس معاملے کو حل کرنا ہے جس سے ایک مہذب معاشرے کا پیغام جائے وگرنہ ہر روز توہین رسالت اور مذہب کی آڑلے کر چند شرپسند اپنے مذموم مقاصد کے لیے کسی بھی انسان کی جان لے سکتے ہیں۔ بہرحال سیالکوٹ واقعے کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی شہری تشدد سے ہلاک ہوا۔ ہلاکت کے بعد لاش کو جلایا گیا۔سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کے تشدد سے غیر ملکی مینجر کی ہلاکت کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ تیار کر لی گئی۔رپورٹ کے مطابق سری لنکن شہری کی موت تشدد سے ہوئی۔ تشدد سے ہلاکت کے بعد سری لنکن شہری کی لاش کو جلایا گیا۔

تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ جسمانی اعضا کے نمونے مزید تجزیے کے لیے پنجاب فرانزک لیب بھجوائے جائیں گے۔ پنجاب فرانزک ایجنسی میں جسمانی اعضا کے نمونوں کا ڈی این اے کیا جائے گا۔تفتیشی ٹیم کے مطابق فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کو بھی تحقیقاتی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کی تشدد کے باعث سری لنکن شہری کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں دہشت گردی اور قتل سمیت دیگر سنگین دفعات شامل کی گئیں ہیں۔افسوسناک امریہ ہے کہ جو گرفتاریاں ہوئی ہیں وہ اپنے ویڈیوز میں بالکل تسلی سے بات کررہے ہیں کہ اس شخص نے مبینہ طور پر توہین رسالت کی ہے ۔کیا ریاست کے اندر قوانین موجود نہیں کہ وہ اپنی بالادستی کو یقینی بنائے اور ایسی ذہنیت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرے، البتہ مذہبی رہنماؤں کی جانب سے اس عمل کی بھرپور حوصلہ شکنی کی گئی ہے مگر ایک اور عمل کو یقینی بناناہوگا کہ مذہبی شدت پسندی کو روکنے کے لیے ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے

جو ہمارے معاشرے کوتباہی کی طرف لے جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کیا کردار ادا کرینگے اور ریاست اپنی رٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایسے واقعات کے تدارک کے لیے مزید کیا اقدامات اٹھائے گی کیونکہ ماضی میں یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ توہین رسالت کے نام پر قتل کرنے والوںکو بڑھاچڑھا کر ہیرو بنا کرپیش کرنے کی کوشش کی گئی، آج ا س کا نتیجہ سیالکوٹ کے المناک واقعے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے لہٰذا اس طرح کی ذہنیت کو ختم کرنے کے لیے ریاستی سطح پر اقدامات اٹھاناوقت کی اشدضرورت ہے۔