گوادر کے لوگ گزشتہ کئی سالوں سے غیرقانونی ٹرالنگ سمیت دیگر مسائل پر سراپااحتجاج ہیں خاص کر ماہی گیر طبقہ تو غیر قانونی ٹرالنگ کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہوکر رہ گیا ہے ،اوپر سے دیگر مسائل ان کے لیے کھڑے کردیئے گئے ہیں بجائے یہ کہ گوادر کے عوام کو بہترین سہولیات فراہم کیے جاتے، ان کے روزگار کو تحفظ فراہم کیاجاتا اور درپیش مسائل کو حل کیاجاتا مزید ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا افسوسناک ہے۔ گوادر سی پیک کا جھومر ہے پہلے بھی اس کا تذکرہ کیاجاچکا ہے کہ سی پیک منصوبوں کے ذریعے سب سے پہلے گوادر اور پھر بلوچستان کے دیگر اضلاع کو فائدہ ملنا چاہئے مگر کئی برس گزر گئے بلوچستان کے حصے میں کچھ نہیں آیا ۔اس سے قبل جو چلنے والے میگا منصوبے ہیں ان میں بھی بلوچستان کے لوگوں کو کچھ نہیں دیا گیا
یہاں تک کہ بلوچستان حکومت کوبھی اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا جس سے اپنا بجٹ بنانے کے ساتھ دیگر منصوبے خود شروع کرتے ۔آج بھی بلوچستان میں محرومیاں اسی جگہ پر موجود ہیں حکمران محض دعوے کرکے تسلیاں ہی دے رہے ہیں۔ جب سے گوادر کو حق دو تحریک شروع ہوئی ہے تو حکومت یہی راگ الاپ رہی ہے کہ گوادر حق دو تحریک کے مطالبات تسلیم کرکے جلد خوشخبری سنائی جائے گی مگر کئی روز گزرجانے کے باوجود کوئی خوشخبری عوام کو نہیں ملی۔ مکران گوادر میں صرف ٹرالنگ اور سرحد کامسئلہ نہیں بلکہ منشیات جیسے کلچر کو پروان چڑھایاجارہا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل بری طرح تباہ ہورہی ہے ،ایک تو لوگوں کے روزگار کے ذرائع بند کئے جارہے ہیں دوسری جانب معاشرے کو منشیات کی طرف دھکیلنا بلوچستان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے، خدارا، ان مسائل کو حل کیاجائے۔ گزشتہ روز صوبائی مشیر داخلہ میر ضیاء لانگوکی زیر صدارت گوادرامن و امان اور جاری دھرنے سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس کو ڈپٹی کمشنر گوادر جمیل احمد بلوچ نے ضلع بھر میںموجودہ امن و امان کی اور جاری دھرنا،پیش رفت اور آئندہ لائحہ عمل پر تفصیلی بریفنگ دی ۔اجلاس میں غیر قانونی فشنگ،بارڈر ٹریڈ، چیک پوسٹوںسمیت دیگر امور کے متعلق تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔
اجلاس میں گوادر حق دو تحریک کے مطالبات ان کے حل سے متعلق بھی بات چیت کی گئی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی مشیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ اپنے لوگوں کی پریشانی کا ادراک ہے مقامی لوگوں کے تحفظات کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے گا لیکن امن و امان کے پیش نظر ایسے سخت اقدامات اٹھانا وقت کی ضرورت ہے، لوگوں کے روزگار اور تحفظات کو یقینی بنانا ہمارا اولین فرض ہے ۔مشیر داخلہ نے کہا کہ چیک پوسٹوں کے حوالے سے ہم پہلے ہی کام کررہے ہیں اور بلوچستان میں اب تک 25 سے زائد چیک پوسٹ ختم کر چکے ہیں اورمزید مکران ڈویژن میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کو بھی بہت جلد ختم کردیں گے۔اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے بھی یہی بات کی تھی کہ جلد مسائل کو حل کیاجائے گا مگر دن گزرتے جارہے ہیں احتجاج میں شدت آرہی ہے لوگ زیادہ غم وغصے کااظہار کررہے ہیں جس کی بڑی وجہ عملی طور پر اقدامات کانہ ہونا ہے ۔ حکومتی سطح پر اجلاسوں سے زیادہ فوری اقدامات کی ضرورت ہے عوام کو براہ راست اپنے مسائل حل ہوتے دکھائی دیں تب جاکر ہی احتجاج ختم ہوگا اور پیدا ہونے والے مسائل مزید گھمبیر نہیں ہونگے اگر اجلاسوں اور بیانات سے ہی کام لیاگیا تو یقینا اس کا اثر کچھ بھی نہیں پڑے گا لہٰذا تسلیوں کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔