گوادر میں جاری دھرنے سے شہرت پانے والے جماعت اسلامی کے رہنماء ہدایت الرحمان میڈیا کی زینت بن چکے ہیں جو پہلے اتنے مقبول نہیں تھے مگر مولاناہدایت الرحمان نے گوادر کے مسائل بھرپور انداز میں سیکیورٹی اداروں کے سامنے رکھا اور مختلف احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرتے ہوئے سخت گیرموقف اپنایا تو گوادر اور مکران کے عوام کی بڑی تعدادمولاناہدایت الرحمان کی قیادت میں یکجا ہوگئی۔
مگر یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ یہ مسائل بنیادی طورپر گوادر کے عوام کو کافی عرصے سے درپیش ہیں جن کے حل کے حوالے سے حکومتوں نے غیر سنجیدگی کامظاہرہ کیا،اس سے قبل ماہی گیروں نے متعدد بار احتجاج کیا ،گوادر کے مکینوں نے بھی شاہراہیں بند کیں مگر کسی طرح ان کی شنوائی نہیں ہوئی ۔یہاں اس تمام عمل کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس وقت گوادر اور مکران میں لوگ جو سراپا احتجاج ہیں اور مولاناہدایت الرحمان کے ساتھ کھڑے ہیں صرف اس لیے کہ مولاناہدایت الرحمان بلوچستان کے فرزند ہیں اور وہ خود انہی متاثرین میں شامل ہیں ناکہ اس پوری تحریک کو جماعت اسلامی سے منسوب کیاجائے کیونکہ گزشتہ چند دنوں سے یہی تاثر ابھر رہا ہے کہ جماعت اسلامی آہستہ آہستہ گوادر کو حق دو کی تحریک کو اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے جس کی وضاحت سب سے پہلے مولانا ہدایت الرحمان کو خود ہی کرنا چاہئے کیونکہ عوام انہیں جانتی ہے اوراس تاثر کو زائل کرنا ہی بہتر ہے وگرنہ گوادر سمیت مکران کے عوام شاید آنے والے دنوں میں اس عمل کو سیاسی مفادات کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اپنے راستے جدا کریں اور مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں احتجاج سے گریز کریں اس سے نقصان پورے اس تحریک کو پہنچے گی جس کو گوادر اورمکران کی عوام بھر پور پذیرائی بخش رہی ہے۔
بہرحال یہاں یہ لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو سے جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ نے ملاقات کی، ملاقات کے دوران جو باتیں ہوئیں وہ قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے جماعت اسلامی کے جنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ سے ملاقات کے دوران جماعت اسلامی کے ضلعی رہنما ء مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں گوادر میں جاری دھرنے سے متعلق امور پر بات چیت کی ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے جماعت اسلامی کے رہنماء کو دھرنے کے مطالبات کے حوالے سے صوبائی حکومت کے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سخت رویوں سے ہمیشہ مسائل پیدا ہوتے ہیں اور فیصلے لینے میں تاخیر سے نقصانات ہوتے ہیں ،گوادر دھرنا جولائی سے جاری ہے، ہم نے گودار دھرنے سے متعلق لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کئے اور انکے مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کے مطالبات پر عملدرآمد بھی کیا جا رہا ہے، غیر قانونی ٹرالنگ کا سختی سے سدباب کیا جارہا ہے سرحدی علاقوں کے لوگوں کو انکے روزگار کے لیے بہت زیادہ ریلیف دیا جارہا ہے، مزید کراسنگ پوائنٹس بنائے جارہے ہیں
جبکہ بجلی ،پانی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جارہاہے اور 70 فیصد چیک پوسٹوں کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ حکومت خود بھی ان مطالبات کو صحیح تسلیم کرتی ہے۔ اس بات چیت کو ہر ذی شعور شخص اپنی نقطہ نگاہ سے دیکھے گا اور نتیجہ اخذکرے گا جس طرح پہلے ذکر کیا گیا کہ گوادرمیں جاری مسائل پر چلنے والی عوامی تحریک کو ایک سیاسی جماعت سے جوڑنے کا تاثر بالکل غلط ہے اسے عوامی مسائل کی تحریک سمجھتے ہوئے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین سے براہ راست بات چیت کی جائے اور انہوں نے جن کومینڈیٹ دیا ہے انہیں شامل گفتگو کیاجائے تاکہ مسائل حل ہوسکیں ناکہ دیگرمعاملات سراٹھائیں۔