اپوزیشن جماعتوں نے ایک بار پھرمارچ کرنے کافیصلہ کرلیا اور اس باراس کا نام مہنگائی مارچ رکھا گیا ہے۔ یقینا ملک میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور عوام کا غصہ بھی بہت زیادہ ہے مگر یہ مارچ کس قدر سنجیدگی کے ساتھ کیاجائے گا یہ بہت بڑا سوال ہے کیونکہ ماضی میں مولانافضل الرحمان اپنی جماعت کے ساتھ اسلام آباد میں تھے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے کوئی اہمیت اس دھرنے کو نہیں دی۔ بعدازاں مولانا فضل الرحمان نے دھرنا ختم کردیااور اب پیپلزپارٹی ٹرننگ پوائنٹ پر آگئی ہے
حالیہ پنجاب میں ضمنی انتخاب میں ووٹ پڑنے کے بعد قائدین نے پنجاب ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں حکومت بنانے کے لیے ذہن بنالیا ہے اور اس کے لیے پیپلزپارٹی مکمل سازگار ماحول کے ساتھ اپنی سیاست کو آگے بڑھائے گی اور مقتدرقوتوں کے ساتھ تعلقات میںمزید بہتری لانے کی کوشش کرے گی جبکہ مسلم لیگ ن کے شہباز شریف بھی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں مگر اب تک انہیں کوئی خاص رسپانس نہیں ملا ہے ۔بہرحال پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے 23 مارچ کو اسلام آباد میں مہنگائی مارچ کرنے کا اعلان کیاہے۔پی ڈی ایم اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ 23 مارچ کو ملک بھر سے کارکنان اسلام آباد پہنچیں گے۔
اس سلسلے میں صوبائی سطح پر اجلاس بلائے جائیں گے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پنجاب میں شہبازشریف اور خیبرپختونخوا میں میں اجلاس کی صدارت کروں گا،مہنگائی مارچ سے متعلق سیمینار کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ پی ڈی ایم سندھ کے اجلاس کی صدارت اویس نورانی اور پی ڈی ایم بلوچستان کے اجلاس کی محمود خان اچکزئی کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اجلاس میں اسمبلیوں سے استعفوں کا معاملہ بھی زیرغور آیا ہے، یہ کارڈ کب استعمال کریں گے اس کا فیصلہ وقت پر ہو گا۔دھرنے سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں نے اسلام آباد میں دھرنے کی بجائے ایک روزہ شو کرنے اور کارکنان کو جلسہ کے لیے فوری متحرک کرنے کی تجویز دی تھی۔دوسری جانب سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان اسمبلیوں سے فوری استعفوں پر بضد رہے اور کہا کہ اسمبلیوں سے استعفے دے کرعوام کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے، انہوں نے پی ڈی ایم کی سربراہی سے مستعفی ہونے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ آج فیصلہ کریں ورنہ میں سربراہی سے مستعفی ہوتا ہوں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تو پی ڈی ایم کی تحریک کا کیا فائدہ ہوگاجبکہ شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے پی ڈی ایم کے اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں لانگ مارچ اور استعفوں پر اتفاق کیا گیا تھا۔دوسری جانب وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک مرتبہ پھر پی ڈی ایم کو مارچ کی تاریخ بدلنے کا مشورہ دیا ہے۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 23مارچ کو پریڈ کی وجہ سے راستے بند ہوں گے پھر یہ کہیں گے حکومت ذمہ دار ہے۔ حکومتی مشورے کو پی ڈی ایم قیادت نے مسترد کرتے ہوئے 23مارچ کوہی مارچ کا فیصلہ کرلیا ہے جس طرح پہلے ہی ذکر کیا گیا کہ مارچ دھرنے میں تبدیل ہوگا اور حکومت پر کس قدر اثرانداز ہوگا،یہ اس کے آغاز سے ہی پتہ چل جائے گا البتہ حکومتی وزراء اب تک بہت مطمئن دکھائی دے رہے ہیں کہ انہیں اپوزیشن کے احتجاج سے کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی اس سے حکومت جائے گی مگر معاملہ حکومت جانے کا نہیں ہے بلکہ اس دوران اپنے سیاسی معاملات کو صحیح سمت کی طرف لیکر جانا ہے جس طرح شہباز شریف کی خواہش ہے کہ جوسخت گیر بیانیہ ن لیگ لے کر چل رہی ہے مستقبل میں قومی سیاست میں اتنی گنجائش انہیںنہیں ملے گی اور اس پرپیپلزپارٹی اپنے معاملات ٹھیک کرے گی۔یہ کشمکش کی سیاست کس سمت جائے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ آئندہ پانچ سال حکومت کے لیے پی ٹی آئی نے بھی ذہن بنالیا ہے ،قومی سیاست کا واضح نقشہ مارچ کے آغاز سے ہی سامنے آئے گا۔