|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2021

وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے شہریوں کو گرین لائن بس منصوبے کا تحفہ دیا گیا۔کراچی میں ریپڈ ٹرانزٹ بس منصوبے کے تحت 5 روٹس کی منصوبہ بندی 2014 میں شروع کی گئی تھی اور پہلی گرین لائن کا تعمیراتی کام 2016 میں شروع ہوا۔2016 میں بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی 2 لائنز گرین لائن اور اورنج لائن کی تعمیر کا کام شروع ہوا تھا۔ ابتدائی منصوبے کے مطابق گرین لائن کا روٹ سرجانی ٹائون سے بزنس ریکارڈ روڈ تک تھا اور منصوبے کو 6 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کرنا تھا تاہم بعد ازاں منصوبے کے روٹ کو پہلے جامع کلاتھ اور پھر ٹاور تک بڑھا دیا گیا۔ اس طرح منصوبے کی لاگت بھی 27 ارب روپے سے بڑھ گئی۔

گرین لائن منصوبے کا پہلا مرحلہ سرجانی ٹائون سے نمائش چورنگی تک کا روٹ ہے جو 22 کلو میٹر طویل ہے۔گرین لائن کے روٹ پر 22 اسٹاپس بنائے گئے ہیں اور ان بس اسٹاپس پر مسافروں کے لیے لفٹس، بزرگ اور خصوصی افراد کے لیے ویل چیئر ریمپ بنائے گئے ہیں۔تمام بس اسٹاپس پر کینٹین، واش روم اور ٹکٹ بوتھ بھی بنائے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چین سے منگوائی گئی 80 جدید بسوں میں یومیہ ڈیڑھ لاکھ افراد سفر کرسکیں گے۔گرین لائن بس منصوبے کے لیے چین سے منگوائی گئی بسیں 18 میٹر لمبی ہیں اور ان بسوں کے اندر ڈرائیور کے لیے کاک پٹ کیبن بنایا گیا ہے۔ سیٹوں کے لحاظ سے ایک بس میں 44 افراد کے بیٹھنے کی سہولت موجود ہے جبکہ 180 افراد بس میں سفر کر سکتے ہیں۔مکمل طور پر ائیرکنڈیشن بس میں معذور افراد کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی ہے جبکہ دوران سفر مسافر وائی فائی، موبائل چارجنگ پورٹ بھی استعمال کر سکیں گے۔

دوران سفر مسافر انٹرٹینمنٹ اسکرین سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔بس کے دونوں اطراف تین تین ہیڈولیک کنٹرول دروازے ہیں۔ جن میں ریمپ کی سہولت بھی موجود ہے ، بس میں نگرانی کے لیے 5 کیمرے لگائے گئے ہیں جو دوران سفر کنٹرول روم سے بذریعہ انٹرنیٹ منسلک ہوں گے۔کراچی کی گرین لائن بس کی خرابی کی صورت میں 2 خصوصی جدید ٹرک ہر وقت تیار رہیں گے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوراً ایکشن میں آئیں گے۔اس بڑے گرین لائن منصوبے کا افتتاح وزیراعظم عمران خان نے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے منصوبے کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پاکستان کی ترقی کا انجن ہے، کراچی خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہو گا۔ ماضی میں کسی نے کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم پر توجہ نہیں دی، روشنیوں کے شہر کو آگے بڑھنے کے بجائے کھنڈر بنتے دیکھا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ لندن پورے برطانیہ کو چلاتا ہے، ایران پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تاہم اس کے باوجود تہران شہر میں ہر قسم کی سہولیات موجود ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ ریونیو اوربڑے شہرکے لیے بس سروس منصوبہ خوش آئند ہے کیونکہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا اور ان کو جائز حق دینا ریاست اور حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

اسی طرح یہی امید موجودہ حکومت سے رکھتے ہیں کہ جس طرح کوئٹہ بلوچستان کا دارالحکومت ہے اس کے لیے بھی گرین لائن بس منصوبہ کا اعلان کیا گیا ہے مگر اب تک اس پر ایک پیسے کا بھی کام نہیں ہوا ہے ،بلوچستان بھی وفاقی حکومت کوبڑے پیمانے پر ریونیو دیتا ہے اورآج تک میگا منصوبوں سے اربوں ڈالر وفاق کو بلوچستان کے ہی مرہون منت ملے ہیںجبکہ چین کے اہم منصوبے جو اس وقت تحفے میں مل رہے ہیں یہ بھی بلوچستان کی وجہ سے ہے لہٰذا سی پیک کے ذریعے چائنا نے جس طرح پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور اہم منصوبے شروع کئے ہیں اس کا فائدہ بلوچستان کے عوام کو بھی ملنا چاہئے۔ لہذا ہم امید رکھتے ہیںکہ بہت جلد کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر شہروں کو بھی جدید سہولیات سے آراستہ کیاجائے گا کیونکہ ملک کا جوحصہ قومی خزانے کو مالی حوالے سے فائدہ پہنچاتا ہے اسے ماڈرن بنانا ریاست اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔