|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2021

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ کرپشن کرنے والوں کو کسی صورت این آر او نہیں ملے گا۔ کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اس کے باوجود پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت مشکل صورتحال ہے تاہم 3 سے 4 ماہ میں مہنگائی ختم ہو گی۔ کم آمدنی والوں کو آٹا، گھی اور دالوں پر 30 فیصد سبسڈی دیں گے۔ آزاد ہو کر بھی ہمیں غلامی کرنی پڑی اور ہم اپنے آزاد فیصلے نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان وہ ملک بنے گا جو کسی کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔

اب آگے پاکستانی قوم کے مفاد میں فیصلے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ کرپشن کرنے والوں کے ساتھ کسی صورت مفاہمت نہیں ہو گی اور کرپشن کرنے والے سن لیں انہیں این آر او نہیں ملے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ کمزور خاندانوں کو سود کے بغیر 5 لاکھ روپے تک قرض دیں گے اور 20 لاکھ کمزور خاندانوں کے لیے بلاسود قرضے دے رہے ہیں۔ اب ہم پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے کام کریں گے۔ وعدہ ہے پاکستان وہ ملک بنے گا جو کسی کے سامنے نہیں جھکے گا۔انہوں نے کہا کہ اپنا گھر بنانے کے لیے 27 لاکھ روپے بلاسود قرض فراہم کیا جائے گا اور ہر خاندان کے پاس صحت کارڈ ہو گا جو 10 لاکھ روپے تک علاج کی سہولت دے گا۔ پہلی بار بڑی رقم نوجوانوں کی تعلیم اور اسکالر شپس پر خرچ ہو رہی ہے اور حکومت 62 لاکھ لوگوں کو اسکالر شپس دے گی۔عمران خان نے کہا کہ دنیا میں فوڈ سپلائی چین کورونا سے متاثر ہوئی اور مہنگائی ہو گئی، اسی مہنگائی کی وجہ سے بنیادی اشیا خورونوش کی قیمتیں بڑھ گئیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف نظریات کے حامل تمام لوگوں سے بات کرنے کو تیار ہیں اور بلوچستان کے ناراض لوگوں سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کرپشن میں ملوث اور عوام کا پیسہ باہر لے جانے والوں سے ہر گز بات نہیں ہو گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ جب چوری کو گناہ نہیں سمجھا جائے گا وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکے گا۔ رسول ﷺ نے فرمایا تھا میری بیٹی بھی چوری کرے گی تو سزا ملے گی۔ جو قوم بڑے ڈاکوؤں سے ڈیل کرتی ہے وہ تباہ ہو جاتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ناراض بلوچوں سمیت دیگر سے بات چیت ایک بہترین فیصلہ ہے ملک اندرون خانہ مستحکم ہوگا تو یقینا معاشی اور سیاسی حوالے سے بھی مستحکم ہوگا مگر اس کے لیے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ چندماہ قبل گوادر میں ایک تقریب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ناراض بلوچوں سے بات چیت کا اعلان کیا تھا مگر اب تک اس میں کیا پیشرفت ہوئی یہ سامنے نہیں آیا اور شاہ زین بگٹی کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی ان کی جانب سے کن ناراض بلوچوں سے رابطے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے انہیں کیا جواب ملا ہے اس کی بھی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں، تو ضروری ہے کہ اس تمام عمل کوبار آور بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ دوسری جانب این آر او کا مسئلہ ہے تو اپوزیشن کے بغیر ملک کے دیگر مسائل کاحل کیسے نکالاجاسکتا ہے اگر اسی طرح ماحول کشیدہ رہے گا تو سازگار طریقے سے پالیسیاں نہیں بنیں گی اس حوالے سے بھی حکومت لچک کامظاہرہ کرے کیونکہ اب تک جتنے بھی اپوزیشن ارکان گرفتار ہوئے ، ان پر کیا جرم ثابت ہوا اور کتنی رقم ان سے واپس لی گئی ،بیرون ملک سے کتنی رقم واپس وطن آئی اس کاکوئی علم نہیں ہے لہٰذا ملک کے وسیع ترمفاد میں سوچنا ان حالات میں وقت کی ضرورت ہے جس پر یقینا غور کیاجائے شاید آگے چل کر مثبت اثرات معاشی اور سیاسی حوالے سے نکل آئیں۔