|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2021

ملک میں روزانہ خبریں جو بنتی ہیں ان میں مہنگائی کا ذکر ضرور ہوتا ہے اچھی خبر سننے کے لیے سب ترس گئے ہیں مگر بدقسمتی سے ایسی کوئی خبر بن ہی نہیں پارہی ،یقینا جو خبر بنتی ہے اسی پر زیادہ فوکس کیاجاتا ہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے لوگوں کو سب سے زیادہ فکر معاش کا ہے جس طرح سے عوام موجودہ حالات کامقابلہ کررہے ہیں شاید تاریخ میں اس طرح انہوں نے ریکارڈ مہنگائی سمیت دیگر بحرانات دیکھیں ہوں یقینا یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ چندسالوں کے اندر مسائل حل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی جادو کی چھڑی سے معاشی بحران پر قابوپاتے ہوئے تمام اشیاء کی قیمتیں ایک ہی روز میں کم سطح پر آسکتی ہیں مگر فکریہ لاحق ہے کہ جو اعداد وشمار اور قرض کا حجم ہے۔

اس سے یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آنے والے سالوں میں بھی صورتحال بہتر ہونے کی امید نہیں ۔گزشتہ روز وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کی ہفتہ وار پورٹ میں بتایا کہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی مجموعی شرح 18.58 فیصد ریکارڈ کی گئی جس کے معنی یہ ہوئے کہ ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی 18 فیصد سے نیچے نہیں آسکی ہے۔ایک ہفتے کے دوران دال مسور کی قیمت میں 6 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا جب کہ دال ماش کی قیمت 7 روپے فی کلو بڑھ گئی۔اعداد و شمار کے تحت گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دال مونگ کی قیمت 3 روپے فی کلو بڑھی جب کہ پیاز، لہسن اور کھلے دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ٹماٹر کی قیمت میں 13 روپے فی کلو کمی آئی ہے جبکہ زندہ مرغی کی قیمت بھی 25 روپے فی کلو کم ہوئی ہے ۔ ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 71 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 5 روپے کی کمی دیکھی گئی ہے۔ ہفتہ وار جائزہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیاہے کہ انڈوں کی قیمت میں 26 پیسے فی درجن اورآلو کی قیمت میں 4 روپے 48 پیسے فی کلو کی کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔واضح رہے کہ دو روز قبل پائیدار ترقی سے متعلق منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شوکت ترین نے دعویٰ کیا تھا کہ آئندہ تین سے چار ماہ کے دوران قیمتوں میں کمی آجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت بڑھ رہی ہے اور ریونیو میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کے استعمال میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ ملکی معیشت بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی کا احساس ہے لیکن یہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے رحجان سے عوام کو معاشی فوائد ملیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے بعد ہماری معیشت نے چار فیصد کی شرح سے ترقی کی۔شوکت ترین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری بچت انتہائی کم ہے اور امپورٹ و ایکسپورٹ میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری برآمدات ملک کی مجموعی پیدوار کا 10 اور درآمدات 25 فیصد ہیں۔انہوں نے کہا کہ معیشت کو بہتر اور کرنسی کی قدر میں اضافے کے لیے ڈالرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات اور درآمدات میں نمایاں فرق سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ریونیو میں اضافہ کرنا ہے۔بہرحال اس سے قبل بھی شوکت ترین سمیت دیگر حکومتی وزراء مہنگائی کم ہونے کی نوید سناچکے ہیں مگر صورتحال واضح ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی رپورٹس مہنگائی اور معاشی بحران کے تمام عوامل کو واضح کرتی ہیں جس کا سامناعوام بہت ہی بری طرح سے کررہے ہیں خدا کرے کہ شوکت ترین کے حالیہ دعوے درست ثابت ہوں اورمہنگائی کم ہو جس کی امید بہت کم ہے۔