|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2021

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر پر کیس کی سماعت ہوئی۔

سابق چیف جج رانا شمیم عدالت میں پیش ہوئے جہاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ یہ محض توہین عدالت کا کیس نہیں بلکہ یہ میرا احتساب ہے، خبر کی سرخی سے یہ تاثر دیا گیا کہ ججز ہدایات لیتے ہیں،عوام کا اس عدالت پر اعتماد اس ایک خبر سے خراب ہوا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی تین سال بعد زندہ ہو کر آ جائے تو اسکے پاس کوئی گراؤنڈ تو ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ رانا شمیم کہتے ہیں کہ نوٹری پبلک نے دستاویز لیک کیا، اگریہ جواب برطانیہ میں ریگولیٹر کو بھیج دیں تو نوٹری پبلک کیلئے مسئلہ بن جائے گا۔

سماعت کے دوران سیکریٹری جنرل پی ایف یو جے نے کہا کہ ہماری تاریخ بڑی تلخ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تاریخ میں نہ جائیں، میں صرف اس ہائیکورٹ کا ذمہ دار ہوں، میں نے پہلے کہا کہ یہاں کوئی سیاسی تقریر نہیں سنوں گا، انہوں نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ تاریخ تلخ ہے،
یا تو اس عدالت کا کوئی فیصلہ بتا دیں جس میں ایسا کچھ ہوا، آپ نے بھی تو کوڑے کھائے ہیں وہ بھی تو تلخ حقیقت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے کوئی کچھ بھی کہہ دے میں توہین عدالت کی کارروائی نہیں کروں گا، لیکن جب کوئی لوگوں کے اعتماد کو خراب کرنے کی کوشش کریگا تو عدالت برداشت نہیں کرے گی۔

عدالت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم نے تسلیم کیا ہے کہ انکا بیان حلفی لیک کرنے کا مقصد عدلیہ کی تضحیک ہے، عدالت توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کرے۔

جبکہ انصار عباسی کا بھی کہنا تھا کہ رانا شمیم نے مجھے بیان حلفی کی خبر شائع کرنے سے نہیں روکا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو دیکھتے 15 جولائی 2018 کو اپیل دائر ہی نہیں تھی۔ آپ نے جواب دے دیا ہم بین الاقوامی پریکٹس کے تحت چلیں گے۔