بلوچستان کے ساحلی علاقے اور سی پیک کے مرکز گوادر میں بیس سے زائددنوں سے احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں سب سے اہم تین مطالبات واضح طورپر نظر آتے ہیں، پہلا غیرقانونی ٹرالنگ کی بندش، پاک ایران سرحد پر کاروبار پر بندش کاخاتمہ اور تیسرا چیک پوسٹوں کے حوالے سے ہے ۔یہ لاینحل مسائل نہیں ہیں مگر انہیں ناقابل حل بنادیا گیا ہے جب مسائل کو حل نہیں کیا جائے گا تو یقینا احتجاج میں شدت ایک فطری عمل ہے کیونکہ گوادر پہلے سے ہی بہت سارے مسائل کا شکار ہے،ایک تو پانی کی بنیادی سہولت میسر نہیں، صحت کا بھی یہی حال ہے، تعلیمی اداروں میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
ماہی گیری جو واحد ذریعہ معاش ہے اس پر بھی ٹرالر مافیا نے ڈاکہ ڈالا ہے ۔کئی برسوں سے غیرقانونی ٹرالنگ جاری ہے مگر اسے روکنے کی کسی میں جرات ہی نہیں تو گوادر کے عوام کے پاس اور کونسا رستہ بچتا ہے۔ ہمارے ملک کے اندر یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ معمولی مسائل کو فوری حل نہیں کیاجاتا اسی وجہ سے مسائل بڑھنے لگتے ہیں اور ردعمل میں شدت بڑھ جاتی ہے۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان نے گوادر میں ماہی گیروں کی جانب سے ایک ماہ سے جاری دھرنے کا نوٹس لے لیاہے۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ گوادر کے ماہی گیروں کے جائز مطالبات کا نوٹس لیا ہے، ٹرالرز کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔
عمران خان نے کہا کہ غیر قانونی ٹرالرز سے مچھلی کے شکار پر وزیراعلیٰ بلوچستان سے بات کروں گا۔دوسری جانب بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے مطالبات کا نوٹس لیا ہے تو عمل درآمد کی توقع بھی ہے۔ان کا کہنا تھاکہ تحریک کے مطالبات پر حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، حکومت نے صرف یقین دہانیاں کرائیں، عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ اب تک مسائل اپنی جگہ موجود ہیں ،وزیراعظم عمران خان صرف نوٹس نہ لیں بلکہ عملی اقدامات اٹھانے پر زور دیتے ہوئے فوری طور پر مسائل کو حل کرے ۔جس طرح مندرجہ بالا سطورمیں بتایا گیا ہے کہ تین اہم مسائل کو کم ازکم فوری طور پر حل کیاجائے ناکہ انہیں مزید طول دیا جائے جس سے ایک منفی پیغام جائے گا کہ سی پیک کا محور ومرکز گوادر کے عوام کو محض طفل تسلیاں دی جارہی ہیں، ان کے مسائل ہی حل نہیں ہورہے تو دیگرمیگامنصوبوں سے ان کے حصے میں کیا آئے گا؟ ماضی میں بھی بلوچستان کے بڑے مسائل پر یہی باتیں ہوتی رہی ہیں کہ محرومیوں کی وجہ سے لوگ ناراض ہیں اور ان کو حل ہونا چاہئے مگر کسی سطح پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔
کوئی ایک حکومت ریکارڈ ترقیاتی کام بتائے، وفاق میں جس کی حکومت آئی بلوچستان کے ساتھ ہاتھ کرکے وقت پورا کرکے رخصت ہوا اور اپوزیشن میں آکر پھر سے بلوچستان کا رونا شروع کیا اور یہی باتیں دہرائیں کہ ہم نے بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا مگر ہمیں بعض جگہ پر اختیارات نہیں دیئے گئے۔ یہی بے اختیاری کی باتیں منصب پر براجمان رہتے وقت نہیں کی جاتیں ،اس کا ذکر اقتدار کے مزے لے کر پھر کیاجاتا ہے ۔البتہ ضروری ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا چاہئے محض تسلیوں سے مسائل حل نہیں ہوتے اور نہ ہی عوام یقین کرے گی ۔بلوچستان ستر سال سے زائد اپنی محرومیوں کے ازالے کا منتظر ہے امید اور توقعات لوگوں کی بہت حد تک ختم ہوچکی ہیں جنہیں بحال کرنا موجودہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ یہ مثال قائم کرسکیں کہ بلوچستان کی محرومیوں کا کسی حد تک تو ازالہ ہم نے کیا۔