کوئٹہ: گوادر کو حق دو تحریک کے مطالبات تسلیم ،دھرنے کے سربراہ مولاناہدایت الرحمن اور حکومت بلوچستان میں تحریری معاہدے کے بعد دھرنے کے شرکاء نے ایک ماہ سے جاری دھرنا اور احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
جمعرات کو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمارا احتجاج کامیاب رہا، ہم نے حکومت سے اپنے مطالبات منوا کر ان پر عملدرآمد کے لیے معاہدہ کر لیا ہے۔
وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں حکومتی وفد نے تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کے ساتھ مذاکرات کیے جس میں چیک پوسٹوں، غیر قانونی ماہی گیری کے خاتمے اور مقامی سطح پر سرحدی تجارت کی بحالی سمیت بیشتر مطالبات کے حل کے لیے اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔
وزیراعلی عبدالقدوس بزنجو، صوبائی وزرا ظہور احمد بلیدی، سید احسان شاہ نے دھرنے میں جاکر گوادر کو حق دو تحریک کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد مولانا ہدایت الرحمان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ آپ لوگوں کی جدوجہد کی وجہ سے آپ کو کامیابی ملی۔
جن چیزوں کو آپ لوگ محسوس کر رہے تھے ہم نے بھی ان کو محسوس کیا۔انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے اپنی جدوجہد کی اور ہم نے اپنے طور پر ان ہی مطالبات جو آپ کر رہے ہیں، کے حل کے لیے جدوجہد کی۔
ہم نے چیک پوسٹس پر لوگوں کی تذلیل، ٹرالنگ کے خاتمے اور سرحد سے کاروبار کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا اور جن لوگوں نے حلف اٹھانے کے بعد میری اسمبلی کی تقریر سنی ہے۔ اس میں بھی میں نے ان مسائل کو سامنے رکھا تھا۔
عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ آج کے بعد ٹرالنگ کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
وزیر اعلی بلوچستان نے کہا کہ لوگوں کے مسائل کے حل کے علاوہ بھی گوادر کی ترقی کے لیے کام ہورہا ہے جس کا نتیجہ جلد لوگوں کے سامنے آئے گا۔
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ حکومت نے ہمارے بیشتر مطالبات تسلیم کر لیے ہیں اور ان میں سے کئی پر پیشرفت بھی شروع ہوگئی ہے، حکومت نے ہمارے ساتھ مطالبات پر عملدرآمد سے متعلق باقاعدہ طور پر تحریری معاہدہ کیا ہے اس لیے ہم نے 15 نومبر سے گوادر کے پورٹ روڈ پر جاری دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ساحل کے قریبی علاقوں میں غیر قانونی ماہی گیری کا ہے، ایک پوری مافیا ٹرالرز کے ذریعے مچھلیوں کا بڑے پیمانے پر غیر قانونی شکار کر رہے ہیں جس کے باعث مقامی ماہی گیر بے روزگار ہورہے ہیں۔حکومت نے اس مطالبے کے حل کے لیے بلوچستان کے ساحل سے 30 ناٹیکل میل کی حدود میں ٹرالرنگ یعنی بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے مچھلی کے شکار پر پابندی عائد کے لیے قانون سازی کرنے کا وعدہ کیا ہے اس سلسلے میں بلوچستان سی فشریز ایکٹ میں ترامیم کی جائے گی۔
پہلے یہ پابندی صرف 12 ناٹیکل میل کی حدود تک تھی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت مچھلی کے غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے مشترکہ پٹرولنگ ٹیمیں بنائے گی جن میں ماہی گیروں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔
مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق گوادر اور گرد و نواح میں ہسپتالوں، سکولوں اور دیگر عمارتوں میں قائم تقریبا دو سو سے زائد چیک پوسٹیں ختم کردی گئی ہیں باقی رہ جانے والی چیک پوسٹوں سے متعلق بھی مقامی لوگوں کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایران کے ساتھ مقامی سطح پر اشیا ضرورت کی تجارت کی بحالی کے لیے ایک ماہ کی مہلت مانگی ہے۔گوادر کو حق دو تحریک کے قائد نے بتایا کہ ہم نے اپنے احتجاج کے ذریعے پورے بلوچستان خصوصا مکران میں خوف اور سیاسی جمود کو ختم کیا ہے، لوگ باہر نکلنے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے ڈر رہے تھے ہم نے ان کی آواز نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک اور دنیا تک پہنچائی۔
ہم نے سب کو یہ باور کرایا کہ بلوچستان کے لوگ پرامن ،جمہوری اور آئینی طریقے سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔خیال رہے کہ گوادر کو حق دو تحریک کے زیر اہتمام 15 نومبر سے گوادر کے پورٹ روڈ پر 10 سے زائد مطالبات کے حق میں دھرنا جارہا ہے۔ اس احتجاج نے 29 نومبر کو اس وقت ملکی و بین الاقوامی میڈیا پر توجہ حاصل کی جب گوادر میں ہزاروں خواتین سڑکوں پر نکل کر دھرنے کے شرکا سے اظہار یکجہتی کیا۔
اس کے بعد 10 دسمبر کو بھی شہر کی تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی۔مقامی لوگوں کو آزادانہ نقل و حمل اور ماہی گیروں کو سمندر میں آزادانہ طور پر شکار کی اجازت دینے، غیر قانونی ماہی گیری اورسرحدی تجارت کے لیے ٹوکن نظام کے خاتمے، لاپتہ افراد کی بازیابی گوادر میں شراب خانوں کی بندش اس احتجاجی تحریک کے مطالبات میں شامل تھے۔
مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ ہم ایک مہینے بعد اپنے مطالبات پر عملدرآمد کا دوبارہ جائزہ لیں گے اور اگرحکومت نے معاہدے پر عمل نہ کیا تو ایک اور دھرنا بھی دیں گے۔