ناسا نے ایک اور تاریخی کامیابی حاصلی کرلی، ناسا کا خلائی جہاز پہلی بار سورج کے قریب سے گزر گیا۔
ناسا ماہرین کا کہنا ہے کہ پارکر سولر پروب نے انتہائی گرمی اور الٹرا وائلٹ شعاعیں جھیلتے ہوئے ایلفویئن نامی لکیر کو عبور کیا جو سورج کی بیرونی فضا کورونا کی باہری حد ہے۔
خلائی جہاز نے ایسا اپریل میں کیا تھا مگر ڈیٹا کے تجزیے سے اب جا کر اس کی تصدیق ہوئی ہے، ڈیٹا کے مطابق پروب پانچ گھنٹوں کے دوران تین مرتبہ اس لکیر کے اوپر اور نیچے سے ہو کر گزرا، اس تجربے سے سائنسدانوں کو سورج کے کام کرنے کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
پارکر سولر پروب خلائی ادارے کا اب تک کا بنایا گیا سب سے ‘جانباز’ مشن ہے۔ اس خلائی جہاز کی رفتار حیران کُن حد تک تیز ہے۔ یہ پانچ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے اور حکمتِ عملی یہ ہے کہ سورج کی فضا میں فوراً داخل ہو کر فوراً باہر آئے، اور اس دوران گرمی سے بچانے والی اپنی موٹی ہیٹ شیلڈ کے پیچھے چھپ کر اپنے مختلف آلات کے ذریعے اعداد و شمار اکٹھا کرے۔
سورج کی سطح یعنی فوٹوسفیئر پر درجہ حرارت چھ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتا ہے لیکن کورونا میں درجہ حرارت 10 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔
پارکر نے ایلفویئن نامی لکیر کو عبور کیا جو سورج کی بیرونی فضا کورونا کی باہری حد ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عام طور پر سورج کی کششِ ثقل سے بندھا رہنے والا مواد اور مقناطیسی لہریں کششِ ثقل سے خود کو چھڑا کر خلا میں باہر نکل جاتی ہیں۔
سورج سے نکلنے والی بڑی مقناطیسی لہریں ہماری زمین کے مقناطیسی میدان کو ہلا کر رکھ سکتی ہیں۔ ایسا ہونے پر زمینی مواصلات معطل ہو سکتی ہیں، سیٹلائٹس آف لائن ہو سکتی ہیں اور بجلی کے گریڈز میں اچانک وولٹیج تیز ہو سکتا ہے۔
سائنسدان سورج کے ان مقناطیسی ‘طوفانوں’ کی پیش گوئی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پارکر کے ذریعے اُنھیں ایسا کرنے کے لیے نئی اور گراں قدر معلومات حاصل ہو سکیں گی۔