کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے گوادر دھرنے میں پیسوں کی تقسیم کا معاملہ ، امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے بلوچستان ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی درخواست مین حکومت بلوچستان بذریعہ چیف سیکرٹری ،وزیراعلیٰ بلوچستان بذریعہ پرنسپل سیکرٹری اور میرعبدالقدوس بزنجو کو فریق بنایاہے ۔
درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ میرعبدالقدوس بزنجونے بحیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے وہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63G پر پورا نہیں اتر رہے اس لئے عدالت عالیہ اس حوالے سے احکامات دیں ۔بعدازاں بلوچستان ہائی کورٹ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے۔
امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ پاکستان کے چند ایسے آئینی درخواستیں ہے جنہیں داخل کیاگیاہے گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان نے گوادر کے دھرنے میں 32ویں دن جس کے خاتمے کااعلان ایک دن پہلے کیاگیا اور طے شدہ تھا وہاں پہنچے اور خاتمے کااعلان ہوا اس کے بعد خواتین میں 5،پانچ ہزار روپے کے نوٹس تقسیم کئے گئے۔
مجھے نہ تومیرعبدالقدوس بزنجو اور نہ ہی دھرنے والوں سے اختلاف ہیں اور نہ ہی خواتین کو پیسے دینے پر اعتراض ہے بلکہ اس معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا 6فروری2019ء کو ایک حکم نامہ جاری کیاتھاجس پرعملدرآمد سب پر لازم ہے سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلے میں میرعبدالقدوس بزنجو بطور وزیراعلیٰ بلوچستان دھرنے کے شرکاء میں پیسے تقسیم کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
اس سلسلے میں بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عدالت کو بتائیں کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کیوں کی ہے ؟ یہ آئین کے آرٹیکل 204،آرٹیکل 189اور آرٹیکل 5کی خلاف ورزی ہے ،وزیراعلیٰ بلوچستان نے آرٹیکل5کی خلاف ورزی کی ہے وہ اسمبلی رکنیت سے نااہل ہوچکے ہیں ۔
آئین کے آرٹیکل 63gمیں واضح ہے کہ اگر کوئی ممبر توہین کرے تو مینڈیٹ کھو دیتاہے لہٰذاء انہیں نااہل قراردیاجائے اور آواران پی بی آواران 44کو خالی قراردیاجائے ۔