ملک میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی بیشتر علاقوں میں گیس ناپیدہونے کی وجہ سے عوام دہرے عذاب میںمبتلاہوکر رہ گئے ہیں گوکہ اس کا عندیہ پہلے سے دیدیا گیا تھا مگر حکمت عملی کیونکر نہیں بنائی گئی کہ شدید سردی کے دوران گیس کی ضروریات زیادہ بڑھ جائینگی جس کابندوبست کیاجائے ۔ہمارے یہاں نظام ہی بالکل الٹ چل رہا ہے محض ایک بیان داغ کر جان چھڑائی جاتی ہے مگر اس کے بعد لوگ کس اذیت سے دوچار ہوتے ہیں شاید اس کا اندازہ بیانات دینے والوں کو نہیں کیونکہ ان کے پاس تمام تر سہولیات دستیاب ہوتی ہیں ۔
بدقسمتی سے جہاں جمہور کا اتنا شور شرابا ہو اور وہیںجمہور کی چمڑی ہر لحاظ سے ادھیڑی جائے تو کس طرح کی جمہوریت کا چرچا اور کیا ان کے لیے ریلیف کا بندوبست کیاجائے، بس یہی ملک میں ہورہا ہے کہ فلاں چور ہے فلاں کرپٹ ہے فلاں کی پالیسی کی وجہ سے آج ملک بحرانات کا سامنا کررہا ہے ،کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں بس سیاست ہورہی ہے ۔حکومت اوراپوزیشن کے درمیان چلنے والی جنگ نے عوام کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام اور کشیدگی جیسا ماحول ہوتو وہاں بحرانات ختم نہیںہوتے بلکہ مزید سر اٹھانے لگتے ہیں۔
بہرحال گزشتہ چند دنوں سے ملک بھر میں گیس کی قلت کے باعث صارفین کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوچکا ہے اوراب وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں، جھوٹی تسلیاں دے کر عوام کوپھر خوشی کی نوید سنائی جاتی ہے۔ ملک میں ہر طرف سے گیس لوڈشیڈنگ اور گیس نہ ہونے کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ گیس کی قلت کے باعث لوگوں کے لیے گھروں میں کھانا پکانا تک نا ممکن ہو گیا ہے جب کہ دوسری جانب ایل پی جی سیلنڈرز اور لکڑی کی قیمت میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔موجودہ ہوشربا گرانی کے دوران ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ دو وقت کا کھانا باہر ہوٹلوں سے خرید سکیں۔ گیس کی قلت کے سبب گیزر اور ہیٹرز بھی ناکارہ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے بزرگوں اور بچوں کے لیے بطور خاص انتہائی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے کیونکہ سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔اس ضمن میں ترجمان سوئی سدرن کا کہنا ہے کہ پرانے اور قدیم علاقوں میں لائنیں بوسیدہ اورلیکج کا شکار ہیں جس کی وجہ سے شہر کے کئی علاقوں میں مناسب پریشر نہیں ہوتا۔ترجمان سوئی سدرن کے مطابق موجودہ صورتحال سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ مسئلہ پورے سال برقرار رہتا ہے۔ترجمان ایس این جی پی ایل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شہر میں کہیں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی ۔ بہرحال یہ دعوے اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ گیس بندش کا دورانیہ 19 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سے شہری سخت پریشان ہیں اوریہ صورتحال اس لحاظ سے بھی نہایت تکلیف دہ ہو گئی ہے کہ ایل پی جی کی قیمتوں میں 40 سے 50 روپے فی کلو کا اضافہ ہو گیا ہے جس کے بعد فی کلو قیمت 240 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اول تو گیس نہیں آتی اور اگر آجائے تو اس کا پریشر اس قدر کم ہوتا ہے کہ بچوں کا دودھ تک گرم نہیں کیا جا سکتا ۔
مہنگائی کی وجہ سے ایل پی جی سیلنڈرز نہیں خرید سکتے اور لکڑی کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔ملک میں اس وقت جس طرح گیس بحران چل رہا ہے اس سے گڈگورننس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے پہلے سردیوں میں گیس لوڈشیڈنگ کم ہوتی تھی مگر اب اس کا دورانیہ بہت زیادہ بڑھادیاگیا ہے ۔جب تین وقت گیس فراہم کی جائے گی تو ظاہر سی بات ہے لوگ مجبوراََ دوسرے ذرائع ڈھونڈنے پر مجبور ہونگے اور گرین پاکستان کا جو خواب دکھایاجارہا ہے وہ درختیں کاٹنے کی وجہ سے کبھی پورا نہیں ہوگا، جب تمام ضروریات عوام کو میسر ہونگی تب انہیں سہانے خواب دکھائے جائیں ۔