گزشتہ چند ماہ سے افغانستان میں انسانی بحران کے حوالے سے عالمی سطح پر بحث ہورہی ہے جبکہ پاکستان نے اس مدعاکو بھرپور طریقے سے اٹھائے رکھا ہے کہ افغانستان کی مدد کی جائے ۔وزیراعظم عمران خان، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی فور م پر افغان وار اور موجودہ صورتحال پر اپنے خیالات کااظہار کرچکے ہیں اور دنیا کی عالمی طاقتوں سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ افغان جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا، اب حالات کو بہتر کرنے کے لیے موجودہ افغان حکومت کے ساتھ تعاون ضرور کرنی چاہئے اگر مالی تعاون نہ کیا گیا تو بہت بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے ۔
پاکستان کی کوششیں بھرپور انداز میں جاری ہیں، گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کے اختتام پر سیکرٹری جنرل او آئی سی حسین براہیم طحہٰ کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اُمید ہے اجلاس سے اعتماد کے فقدان میں کمی آئے گی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اجلاس کے شرکا ء کو افغان انسانی بحران کا ادراک ہوا ہے،اگر بروقت مدد نہ کی گئی تو صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے اور افغانستان کے ہمسائے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں افغانستان اور فلسطین کے حوالے سے دو دستاویزات منظور کی گئی ہیں جبکہ افغانستان کے لیے ٹرسٹ فنڈ اور فوڈ سکیورٹی پروگرام پر بھی اتفاق کیا گیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس میں437 وفود نے شرکت کی جبکہ 20 ممالک کے وزرائے خارجہ اور 10 کے نائب وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔
اس کے علاوہ انہوں نے بتایاکہ پی فائیو، ای یو،جرمنی جاپان اور اٹلی کے نمائندگان نے بھی اجلاس میں حصہ لیا۔دوسری جانب امریکی کانگریس کے ارکان نے جوبائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے منجمد اثاثے اقوام متحدہ کے مناسب ادارے کو جاری کیے جائیں، طالبان کی نہیںافغان عوام کو مدد کی جائے۔ موسم سرما افغانستان کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ کانگریس ارکان کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے نام خط لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے عوام جن کے ساتھ ہم نے گزشتہ 20 سالوں سے جدوجہد کی ہے، وہ قحط اور معاشی تباہی کے دہانے پر ہیں اور ان کا خیال ہے کہ انسانی تباہی کی روک تھام کے لئے فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔ہمیں طالبان حکومت کی مدد کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے اور ہمیں یقین ہے کہ امریکہ طالبان کو قانونی حیثیت نہ دیتے ہوئے افغانستان کی امداد پر منحصر معیشت کے تباہ کن خاتمے کو روکنے میں مدد کے لیے ایک طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ طالبان کو نہیں بلکہ افغان عوام کو براہ راست امداد فراہم کرنے کے لیے اقدامات کی سفارش کر رہے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان معاشی تباہی کے دہانے پر ہے اور تقریبا ًایک کروڑ 84 لاکھ افغانوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ 30 فیصد آبادی کو ہنگامی یا غذائی بحران کا سامنا ہے جس میں 20 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔یہ چیلنجز لیکویڈیٹی بحران کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں افغان تنخواہیں وصول نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ بینک میں بچت کرنے والے افغان بھی کافی مقدار میں فنڈز نکالنے سے قاصر ہیں کیونکہ بینکوں اور دیگر اداروں کے پاس ڈالر ختم ہو چکے ہیں۔بڑھتے ہوئے معاشی اور غذائی بحران نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے خدشات کو جنم دیا ہے جو خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ بہرحال امریکہ اب تک اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ فی الوقت کسی طور تعاون کرنے کے حق میں نہیں ہے بلکہ براہ راست افغان حکومت کو کسی بھی طرح کی مالی مدد کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے افغانستان میں مالی امداد کی جائے گی یہ بھی ایک اچھا عمل ہے کم ازکم افغانستان میں جو اس وقت شدید مالی بحران کے باعث بڑی تعداد میں عوام بھوک وافلاس سمیت شدید ٹھنڈ کی وجہ سے تمام تر سہولیات سے محروم ہیں ان اداروں کے ذریعے مدد سے مشکلات کم ہونگی مگر یہ دیرپا اور مستقل حل نہیں ہے۔
افغانستان کی موجودہ قیادت کے ساتھ امریکہ ودیگر عالمی قوتوں کو بیٹھنا چاہئے اب تو طالبان کی نئی حکومت نے بہت سے معاملات پر لچک کامظاہرہ کیا ہے جہاں برسوں سے پولیو مہم نہیں چل رہا تھا موجودہ حکومت نے شروع کردیا ہے جوایک مثبت پیشرفت ہے۔ افغان حکومت کے موجودہ رویوں کے پیش نظر تعلقات پرنظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس کے اچھے نتائج نکلیں، اگر افغانستان کو تنہا چھوڑا جائے گا یقینا اس کے منفی اثرات ہی مرتب ہونگے۔