ملک میں بڑے اور اہم فیصلے قومی بیانیہ کے مطابق ہی کئے جاتے ہیں چونکہ حکمران اپنے دور کے قومی فیصلوں پر ریاست کو پورا داؤ پر نہیں لگاتا۔ یہاں بات سرد جنگ کی ہورہی ہے جب سوویت یونین نے افغانستان میں پڑاؤ ڈالا اور پیش قدمی کرتے یہاں تک پہنچا سینٹرل ایشیاء پر مکمل کنٹرول کے بعد یہاں کے خطے میں پنجہ گاڑھ کرریاستوں کو سوویت یونین میں ضم کرنا اس کا بنیادی مقصد تھا اور اس نظریہ سے تعلق رکھنے والے افغان اور پاکستان کے سیاستدانوں نے سوویت یونین کو خوش آمدید سمیت ان کے اس نظریہ کی پرچار اور عوامی سطح پر باقاعدہ اجتماعات منعقد کئے ،ان میں بلوچ،پختون قوم پرست سمیت پنجاب، سندھ، کراچی کے بائیں بازو کے سیاستدان، دانشور، ادیب، شعراء سب شامل تھے۔بہرحال بائیں بازو کے نظریہ کی سیاست اور اس سے ریاستوں کی تشکیل کے مقاصد،یہ ایک بہت بڑی بحث ہے جسے چند لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا مگر یہ ضرور ہے کہ بنیادی مقصد برابری اور سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل دنیا سے خاتمہ بائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے والوں کا اہم جز تھا۔ بائیں بازو کے سیاسی اثرات افغانستان اور پاکستان پر پڑرہے تھے ڈاکٹرنجیب اللہ افغانستان میں مرکزی کردار تھے جن کے مدمقابل دائیں بازو اور اسلامی نظریات رکھنے والے تھے سوویت یونین کی آمد سے سب سے زیادہ خطرہ امریکہ اور اس کے ساتھ جڑے سامراجی قوتوں کودرپیش تھا کہ کس طرح سے اس خطے سے سوویت یونین کو شکست فاش سے دوچار کرکے سرمایہ دارانہ نظام کو بچایا جائے جس کیلئے منظم پلاننگ اور سرمایہ کاری کا آغاز کیا گیااور باقاعدہ اس کے بعد ایک بہت بڑی اتحاد تشکیل دی گئی۔ افغانستان میں ڈاکٹرنجیب اللہ کے نظریات مخالفین کو مکمل مسلح اور طاقت کے ذریعے بھرپورلیس کیا گیا ہر طرح کی سپورٹ انہیں دی گئی پھر افغانستان میں ڈاکٹرنجیب اللہ کے لیے مزاحمت بڑھ گئی یہاں تک کہ افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد جو سوویت یونین کے خلاف لڑرہے تھے انہیں مجبوراََ ڈاکٹرنجیب اللہ نے مزاحمت ترک کرنے کا کہا چونکہ حالات ان کے سامنے ہی تبدیل ہوتے جارہے تھے جبکہ پاکستان بھی امریکہ کے ساتھ اتحادی کے طورپر اس جنگ میں شریک ہوچکا تھا اور جو سرمایہ کاری ڈالرکے ذریعے کی گئی اس کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔بہرحال یہ تمام معاملات جو چل رہے تھے ریاستوں نے اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے امریکہ کا ساتھ دیااور بلآخر سوویت یونین شکست سے دوچار ہوگئی، ڈاکٹرنجیب اللہ کو قتل کردیا گیاپھر افغانستان میں ریاستی معاملات اسلامی نظریات سے تعلق رکھنے والی جماعت کے پاس گئے۔ پاکستان میں بھی اس شکست کاجشن منایاگیا اور مولوی کی حمایت یہاں کی مذہبی جماعتیں کرتی رہیں۔اب مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے یہ فرمایا کہ افغان وار سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا اس وقت کے حکمرانوں نے ڈالر کے عوض پوری ریاست کو داؤ پر لگادیا جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا، اب اس دور میں ضیاء الحق اور آخر میں مشرف تک یہ معاملات چل رہے تھے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دوران ان حکمرانوں نے انفرادی حیثیت سے ریاستی فیصلے کئے اور قومی بیانیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے دیا،پوچھنا تو اسی دورکے حکمرانوں سے ہے جو اس عمل میں شریک تھے ان سے بھی یہ دریافت کیا جائے کہ یہ جنگ کیوں لڑی گئی اور ان کے مفادات کیا تھے ڈالرز کس کے حصے میں آئے ریاست کا دیوالیہ ہوگیا پھر اس جنگ کا فائدہ چند مخصوص طبقات نے اٹھایا۔کس سے یہ سوالات پوچھیں جائینگے اور کس کو ذمہ دار ٹہرایا جائے گا؟
سردجنگ سے لے کر طالبان کی شکست تک، پاکستان کے نقصانات کاذمہ دارکون؟
وقتِ اشاعت : December 24 – 2021