عوام کے مسائل کا حل کو نکالے گا؟ کون ان کی داد رسی کرے گا؟ کس کے پاس اپنی فریاد لے کر جائیں؟احتجاج کریں؟شاہراہیں بلاک کریں؟ انتشاری کیفیت پیدا ہوجائے؟ نہ جانے ملک کے اہم محکموں کے اندر بڑے ذمہ داران وآفیسران عوام کو اپنا غلام کیوں سمجھتے ہیں اورعوامی نوعیت کے مسائل کو حل کرنے میں انتہائی غیر سنجیدگی کامظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسز سے بھاری تنخواہ وصول کرنے والے آفیسران کو عوامی معاملات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے اگر محکموں کے اندر آفیسران ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے تو شاید بعض حد تک ملک کے اندر موجود بحرانات اور مسائل حل ہوتے اور عوام ہر معاملے پر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور نہ ہوتے مگر انہیں اس قدر ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کا معاملہ ہوجاتا ہے۔ عوام کو اشتعال میں لانے کے ذمہ داران محکموں کے اندر بیٹھے آفیسران ہی ہیں
جن سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی، اگر ایک دو محکموں کے آفیسران کو طلب کرکے تحقیقات کی جاتی ہے پھر معاملہ رفع دفع کمیٹی کے سپردہوجاتا ہے اور پھر سب کچھ پہلے کی طرح ہوتا ہے کیونکہ ماضی ہماری یہی بتاتی ہے کہ کسی بھی بڑے آفیسر کو اس کی غفلت کوتاہی اور لاپرواہی کے باعث ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا ۔ اندازہ لگایا جائے کہ ملک میں اس وقت موسم سرما ہے اور شدید سردی کی لپیٹ میں ہونے والے علاقوں میں گیس ناپید ہے ۔ عوام کو گیس بحران مزید سنگین ہونے کا بتا کر ایم ڈی سوئی سدرن گیس چھٹیاں منانے بیرون ملک چلے گئے۔سندھ اوربلوچستان کے عوام کو گیس بحران میں مبتلا کرکے بھاری تنخواہ لینے والے ایم ڈی سوئی سدرن عمران منیار نیوایئر منانے امریکا روانہ ہو ئے ہیں۔9 روز کی چھٹیوں پر روانہ ہونے سے صرف ایک دن قبل ایم ڈی عمران منیار نے وڈیو پیغام میں گیس بحران مزید سنگین ہونے اورعوام سے تعاون کی درخواست کی تھی۔ایم ڈی عمران منیار کو بھاری تنخواہ پر بیرون ملک سے بھرتی کیا گیا تھا۔ویڈیو پیغام میں ایم ڈی کا کہنا تھا کہ گیس لوڈ مینجمنٹ پلان میں گھریلو صارفین کواولین ترجیح حاصل ہے سسٹم میں دسمبر میں 200 ایم ایم سی ایف ڈی کی کمی کا سامنا ہے ایس ایس جی سی کوجنوری میں250ایم ایم سی ایف ڈی تک بڑھنے کا اندیشہ ہے ایم ڈی نے کہا کہ سوئی سدرن گھریلوصارفین تک گیس پہنچانے کیلئے کوششیں کر رہا ہے۔
اس سے بڑی بے حسی کیا ہوسکتی ہے کہ ایک اہم عہدے پر بیٹھے ایم ڈی کو کوئی پرواہ ہی نہیں کہ اس وقت گیس بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور عوام شدید سردی میں کھانے پکانے کیلئے بھی لکڑی کا استعمال کررہے ہیں اور خود موصوف سیرسپاٹے کیلئے نکل گئے ہیں اب کون موصوف سے پوچھے گا کہ آپ کی ڈیوٹی اور فرائض میں کیا ذمہ داریاں شامل ہیں ،کیا ان کے خلاف ایکشن لیاجائے گا ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی یقینا نہیں کیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ صرف یہ نہیں بلکہ دیگر آفیسران بھی اسی طرح اپنے محکموں کے اندر روش اپناتے ہیں تو اس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے ،زیادہ سے زیادہ چند سوالات یا تنقید ہی کی جائے گی پھر طنزیہ اور مسکراتے ہوئے جواب دے کر سنگین غفلت کو مذاق میں اڑا دینگے ۔ خدارا اس ملک کے عوام پر رحم کیاجائے اگر حکومت ان آفیسران کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی تو کون کرے گا ہر معاملے پر سپریم کورٹ نوٹس لینا شروع کرے گی تو حکومت اپنی گڈگورننس کس طرح برقرار رکھ پائے گی یہ حکومت کے لیے بہتر نہیں ہے لہٰذا وفاقی حکومت اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ان جیسے آفیسران کی چھٹی کرے تاکہ مثال قائم ہوسکے اور عوام کے ساتھ زیادتیوں کاازالہ ممکن ہوسکے۔