|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2022

2021ء بہت سی یادیں ،لمحات،واقعات، سانحات لے کر رخصت ہوگیا۔ بلوچستان کی بات کی جائے تو یقینا صوبے کے مرکزی سیاستدانوں سے لیکر دیگر اہم شخصیات چلی گئیں جو کہ بڑے صدمے سے کم نہیں جن کا کردار بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے باب میں لکھا جائے گا۔ سردار عطاء اللہ خان مینگل، میرحاصل خان بزنجو، لالاعثمان کاکڑجیسے زیرک سیاستدانوں نے ایک طویل جدوجہد بلوچستان کے حقوق کیلئے کی ۔بہرحال کسی کے نظریہ سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اپنے بساط کے مطابق جدوجہد میں سبھی نے حصہ ڈالا۔

دوسری جانب ملک میں سیاسی استحکام، معاشی بحران، دہشت گردی کے واقعات سمیت انگنت ایسے معاملات ہیں جو فی الحال بہتر نہیں ہوئے۔ 2021ء کے دوران بھی یہی امیدیں اورتوقعات رکھی گئیں تھیں کہ ملک میں حالات بدل جائینگے لوگوں کی زندگی میں تبدیلیاں آئینگی مگر یہ سب اہداف حاصل نہ ہوسکے۔اب ایک بار پھر عوام کو یہی امید دلائی جارہی ہے کہ نئے سال میں بڑی تبدیلیاں ہونگی اب خدا جانے کیسی تبدیلیاں رونما ہوںگی کیونکہ حکومت اوراپوزیشن اس وقت ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہیں اورسال نو کے دوران ہی مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کی جانب سے اسلام آباد لانگ مارچ پلان ترتیب دیا گیاہے اور یہ معاملہ ساڑھے تین سالوں سے چلتا آرہا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لچک سے لے کر ڈائیلاگ کی بات صرف بیانات تک ہی ہوتی رہیں مگر حقائق اس کے برعکس نکلے۔

بہرحال اس تمام تر سیاسی صورتحال کے دوران عوام نے بہت کچھ بھگتا ہے خاص کر مہنگائی نے تو غریب عوام کو بے بس اور لاچار کرکے چھوڑدیا ہے ملک میںتاریخ ترین مہنگائی گزشتہ سال ریکارڈ کی گئی اب مزید مہنگائی کا سونامی آنے کے خطرات منڈلارہے ہیں معیشت جس سمت جارہی ہے تو امید اور توقعات فی الحال رکھے نہیں جاسکتے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت سیاسی جماعتوں کی تمام تر توجہ اقتدار پر مرکوز ہے کہ کس طرح سے اقتدار پر اپنی پہنچ یقینی بنائیں ۔اگر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی گزشتہ روز کے بیان کو دیکھا جائے جس میں وہ برملا اس بات کااظہار کررہے ہیں کہ ہر جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کا سایہ چاہئے اس میں کوئی انوکھی بات ہی نہیں اور اسے جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا ،یہ ہماری تاریخ رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوامی اجتماعات میں بات کرنے والے بیک ڈور بات چیت کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں صرف درمیان میں ایک برج کی ضرورت پڑتی ہے۔

پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن دونوں ہی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں مگر بات کہاں اور کس حد تک پہنچی ہے یہ نہیں کہا جاسکتا البتہ پی ٹی آئی مضبوط پچ پر فی الحال کھیل رہی ہے۔ اس سے قبل اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقوں نے مکمل طور پر سیاسی مداخلت کے حوالے سے بیانات کی تردید کی ہے کہ انہیں خوامخواہ سیاسی معاملات میں گھسیٹا جارہا ہے مگر اب موجودہ وفاقی وزیر داخلہ یہ بات کہہ رہے ہیں تو اس پر یقینا بحث ہوگی اور بیانات بھی آتے رہیں گے۔ حکومت اوراپوزیشن جہاں اپنی سیاسی نظریات اور پالیسی کا ڈھول پیٹتی رہتی ہیں وہیں ان کے بیانات خود اس حوالے سے ان کی نظریات اور کردار کو واضح کرتی ہیں مگر یہ تمام عمل ملک کیلئے کسی صورت سود مند نہیں ۔اگر چیلنجز سے نکلنا ہے تو سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو خود اپنے آپ کو بدلنا ہوگا تب جاکر نئے سال کے دوران نئی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ کچھ تو بہتری آئے گی مگر یہ تب ہوگا جب پارلیمان میں بیٹھی جماعتیں ایک پیج پر آجائیں اور ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کریں جس کے امکانات تو دکھائی نہیں دے رہے ،شاید معجزہ ہوجائے۔