|

وقتِ اشاعت :   January 3 – 2022

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ کراچی میں رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس پر قتل کیے گئے ناظم جوکھیو کے اہل خانہ اگر ملزمان کے ساتھ سمجھوتے پر راضی ہو جاتے ہیں تو پھر ریاست عدالت میں اس مقدمے کی پیروی کرے گی۔

شیریں مزاری نے پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ ناظم جوکھیو کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

انہوں نے ریاست کی جانب سے مقدمے کی پیروی کی یقین دہانی کراتے ہوئے اس حوالے سے قندیل بلوچ قتل کیس کی مثال دی جس میں مقتولہ کے خاندان کی جانب سے ملزمان کو معافی دیے جانے کے بعد ریاست شکایت گزار بن گئی تھی۔

ناظم جوکھیو گزشتہ سال 3 نومبر کو پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے فارم ہاؤس پر مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔

ان کے لواحقین نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی اور ان کے بھائی، پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے ساتھیوں پر ناظم کو تشدد کا نشانہ کر قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ناظم جوکھیو نے اراکین اسمبلی کے عرب مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکا تھا اور ٹھٹہ کے گاؤں میں شکار کرتے ہوئے ان کی ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔

قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اس کیس پر قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دینے کے لیے پیر کو آئی جی سندھ کو طلب کیا تھا لیکن وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

اجلاس میں شریک دیگر پولیس حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کو مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور ناظم کے بھائی نے تین اہلکاروں کے نام بتائے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان تینوں افراد سے بھی تفتیش کی جائے۔

پولیس حکام نے تصدیق کی کہ ناظم کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مارا پیٹا گیا، مقدمے میں اب تک چھ ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور اصل قاتلوں کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

پولیس حکام نے بھی کہا کہ اگر مقتول کے رشتے دار کسی سمجھوتے پر راضی ہوتے ہیں تو وہ ازخود عدالت میں مقدمے کی پیروی کریں گے۔

ان کی بریفنگ کے بعد قائمہ کمیٹی نے آئی جی سندھ کو اگلے اجلاس میں دوبارہ طلب کر لیا۔

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے اجلاس کے دوران کہا کہ رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے ساتھی ناظم جوکھیو کو فارم ہاؤس لے گئے اور اس کے بھائی افضل نے وہاں اپنے چھوٹے بھائی کے رونے کی آوازیں سنیں۔

سینٹر نے کہا کہ واقعے کی ایف آئی آر اس وقت درج کی گئی جب مقتول کے اہلخانہ اور دوستوں نے لاش کے ہمراہ نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیتے ہوئے مظاہرہ کیا۔

سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ سندھ میں ایسے ہزاروں قتل ہوتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں صرف پرندوں کا ہی شکار نہیں کیا جاتا، عرب ممالک سے آنے والے شہزادے وہاں کیا کرتے ہیں اس پر بریفنگ ہونی چاہیے کیونکہ وہاں شرمناک سرگرمیاں ہوتی ہیں۔