|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2022

خاران : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے کہا ہے کہ ریکوڈک کا مسئلہ آج سے نہیں بلکہ 2003 سے ارہا ہے اس کو آسٹریلین کمپنی کو لیز پر دیا گیا تھا جام یوسف کے پہلے دور حکومت میں سیندک کا معاہدہ کیا گیا تھا۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے خاران میں مختصرا دورے کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کیا اس موقع پر پارٹی کے دیگر رائنما بھی موجود تھے انھوں نیکہا کہ جام کمال خان کے دور حکومت میں بلوچستان کو ریکوڈک میں 10 فیصد شئیر رکھا گیا تھا اب جبکہ بلوچستان میں قدوس بزنجو کے حکومت نے 10 فیصد کے بجائے 25 فیصد شئیر رکھنے کر آمادہ ہیں لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی کو 50 فیصد شئیر سے کم کسی بھی معاہدہ قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ بلوچستان ہمارا،وطن اور سرزمین ہیں بلوچستان کے عوام آج بھی کسمپرسی کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پورے صوبے میں عوام زندگی کے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں کئی کئی علاقوں میں صحت ۔

تعلیم۔پانی اور سڑک تک نہیں ہیں خاران بھی بلوچستان کا حصہ ہے اس میں کوئی شک نہیں گزشتہ کئی ادوار سے اس علاقے سے منتخب ہونے والے نمائندوں چائے وزیر یا مشیر رہے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے حکومت کا حصہ دار رہے ہیں بلوچستان بلکہ خاران کے عوام کا مشکور ہیں جنھوں نے جنرل الیکشن کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کرایا لیکن آج بھی پرانے نمائندوں کے اثرات ابھی بھی موجود ہیں سابق صوبائی حکومت نے خاران سے منتخب ہونے والے نمائندے نہیں بلکہ بلوچستان سے منتخب عوامی نمائندوں کے فنڈز روکے ہوئے تھے بدقسمتی سے سابق صوبائی حکومت نے منتخب نمائندوں کے بجائے غیر منتخب لوگوں کے تجویز پر فنڈز جاری کئے تھے اس بنا پر ہم مجبور ہوکر جام کمال خان کے حکومت کو ختم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا انھوں نیکہا کہ موجودہ صوبائی حکومت سے یہی امید رکھا ہے کہ وہ منتخب عوامی نمائندوں کے تجاویز پر ترقیاتی منصوبوں پر کام کرے تاکہ صوبے کے پسماندگی کے خاتمے میں مدد مل سکے۔

گزشتہ تین سال سے پی ایس ڈی پی میں غیر منتخب لوگوں کو فنڈز دئیے گیے تھے غیر منتخب لوگوں کو 40 کروڑ جبکہ منتخب عوامی نمائندوں کو صرف 13 کروڑ روپے ریلیز کئیے تھے وہ بھی منتخب عوامی نمائندوں کو بمشکل 6 کروڑ روپے ریلیز کئیے گئے جو کہ ظلم اور ناانصافی کے مترادف تھے اگر سابق صوبائی حکومت منتخب عوامی نمائندوں کو فنڈز دئیے جاتے تو صوبے کے عوام کی تقدیر بدل سکتی انہوں نے کہا کہ ہر سیاسی پارٹی میں اختلافات جمہوری حق ہے جس کا ایک فورم ہوتا ہے اپنے اختلافات اس فورم میں اٹھایا جاسکتا ہیں جس کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہیں اگر اختلافات فورم کے بجائے میڈیا میں دئیے گئے تو ہر پارٹی کا اپنا پالیسی ہوتا ہے۔دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچ قوم کی ترقی اور خوشحالی کیلئے جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ہمسایہ ملک کے ملحقہ بارڈرز کیساتھ دونوں اطراف میں آباد بلوچ قوم کو آزادنہ کاروبار کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے یک مچ میں تیل کمیٹی ممبران سے بات چیت کرتے ہوئے کیا اس موقع پر تیل کمیٹی ممبران نے کاروبار کے زرائع بند ہونے پر مسائل سے آگاہ کیا سردار اختر جان مینگل نے کمیٹی ممبران کو یقین دلایا کہ انکے اس اہم مسئلے کو قومی اسمبلی سمیت پارٹی پروگرامز میں اٹھایا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ بارڈرز پر آباد بلوچ قوم کا واحد ذریعہ معاش تجارت پر منحصر ہے جنکو محدود کرکے لوگوں کو دو وقت روٹی کا محتاج بنایا گیا ہے لوگوں کے مسائل اور انکی مشکلات کے حل کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے رکن قومی اسمبلی میر محمد ہاشم نوتیزئی اور رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ سے تیل کمیٹی ممبران نے بھی ملاقات کی اور اپنے درپیش مسائل سے آگاہ کیا اس موقع پر انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو علاقوں میں تقسیم کرکے انکے روزگار زرائع کم کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنائینگے بلوچ قوم کو ہمسایہ ملک کے بارڈرز سے تجارت کرنے کی آزادانہ راستہ ملنا چائیے کیونکہ ویسے بھی بلوچستان کی اکثریت بیروزگار ہے بارڈرز پر معمولی کاروبار کی بندش انکی معاشی قتل کے مترداف ہیں انہوں نے کہا کہ پالیسوں میں نرمی لاکر مزید گیٹ کھول کر لوگوں کو روزگار کے مواقع دئیے جائیں۔