کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن و سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد نے پارٹی کو اظہاروجوہ کے نوٹس کاجواب دیتے ہوئے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ،میر ہمایوں عزیز کرد نے کہا ہے کہ اپنے سوالات کے جوابا ت کا منتظر ہوں تاہم جواب نہیں ملے ،ہم ایک سیاسی عمل کا حصہ بننے آئے ،پارٹی کے ذمہ داروں نے رکاوٹیںحائل کرکے سیاسی عمل سے باہر رکھا، پارٹی میں فیصلے اداروں کی بجائے افراد کرتے ہیں ۔
فرد واحد کے فیصلوںکا خمیازہ بلوچستان کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ، غیر سیاسی فیصلوں سے تاثر ملا کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کیلئے قیادت کا اعتماد سالوں سے جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں پر نہیںبلکہ اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔حقیقی سیاسی کارکنوں اور بلوچستان کے عوام کے سامنے آنے والے تضادات کے بعد پارٹی اپنے غلط فیصلوں کا ملبہ مجھ جیسے لوگوں پر ڈال کر جان چھڑانا چاہتی ہے۔ پارٹی سربراہ کی جانب سے جاری اظہاروجوہ کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے انہوںنے مزید کہا کہ مجھے اظہاروجوہ کا نوٹس جاری کرکے اس ضمن میںجواب طلب کیا گیا،اظہاروجوہ کے نوٹس کاجواب دینا میرا سیاسی و اخلاقی فرض ہے ۔
اظہاروجوہ کے نوٹس میںمجھے یہ نوید سنائی گئی کہ آپ نے میرے سوالات کے جوابا ت دے دیئے ہیں،حالانکہ میں کافی عرصے سے اپنے سوالات کے جوابا ت کا منتظر ہوں تاہم اب تک مجھے میرے سوالات کے جواب نہیں ملے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے پارٹی کے دو سینٹرل کمیٹی کے اجلاس کراچی کے ڈیفنس کلب جس سے متعلق آپ کی رائے تھی کہ یہ استحصالی قوتوں کا مرکز ہے، میری سیاسی بصیرت کے مطابق سینیٹرل کمیٹی کے یہ دونوں اجلاس محض غیرسنجیدہ اجتماعات اور قاسم رونجھو کی دعوت کے سوا کچھ نہ تھے ۔ سینٹرل کمیٹی کے اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب صاحب اجلاس ختم ہونے کا اعلان کرکے یہ کہتے رہے کہ ساڑھے پانچ بجے تک اجلاسوں کو ختم کرنا ہے کیونکہ جس حال میں مرکزی کمیٹی کے دونوں اجلاس منعقد کئے گئے تھے وہاں شادی کی دعوتوںکا اہتمام بھی پہلے سے ہی طے پایاتھا پارٹی کے اجلاسوں میں ایک قوم کی زندگی اور سیاسی عمل کے فیصلوں کی اہمیت کو نظر انداز کرکے سیکرٹری جنرل صاحب اجلاسوں کے آغاز پر ہی شادیوں کی اہمیت کا اعلان کرتے رہے پارٹی کے ان غیر سنجیدہ رویوں سے یہ محسوس ہوا کہ یہ دونوں اجلاس محض دعوتیں تھیں ان اجلاسوں میں میرے سوالات جوں کے توں رہ گئے ۔
انہوںنے کہا کہ زیادہ پرانی بات نہیں حال ہی میں کوئٹہ میں ہونے والے مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان کے سنجیدہ مسائل پر زیادہ بحث نہیں ہوئی ، مرحوم سردار عطااللہ خان مینگل پر بات کرنے کے بعد محفل برخاست کردی گئی۔اس اجلاس کے بعد صوبے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں میں پارٹی کے پارلیمانی گروپ نے باپ کے قدوس بزنجو کو وزیراعلی بنانے کیلئے جدوجہد کی یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہزاروں سیاسی کارکنوں اور شہداکا مقصد جام کمال خان اور قدوس بزنجو کا چہرہ بدلنا تھا یا قدوس بزنجو کیساتھ ایک خاص معاہدہ ہوا ہے؟ قدوس بزنجو سے ہونے والے معاہدے میں پارٹی کے چھ نکات پر عملدرآمد کرانا شامل ہے ؟یا پارٹی کے اس الیکشن منشور میں شامل نکات پر بات ہوئی ہے جس منشور کی بنیاد پر بلوچستان اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تھا ؟
مگر جام کمال کی حکومت کو غیر مستحکم اور قدوس بزنجو کو وزیراعلی منتخب کرانے کیلئے پارٹی کی ہونے والی جدوجہد میں کیا معاملات طے پائے ہیں کم از کم مجھے اس کا علم نہیں ہے ۔ انہوںنے کہاکہ پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی محترمہ زینت شاہوانی کیخلاف سینیٹ انتخابات کے معاملہ کی تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور اس کمیٹی کی رپورٹ پر خاتون رکن اسمبلی کی پارٹی رکنیت ختم کی گئی تاہم اس کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا بقول پارٹی سربراہ کے محترمہ زینت شاہوانی نے چھپ کر باپ پارٹی کے امیدوار کو سینیٹ الیکشن میں ووٹ دیا مگر اس کے بعد پارٹی کے تمام ارکان اسمبلی نے کھل کر نہ صرف باپ پارٹی کو ددوٹ دیا بلکہ قدوس بزنجو کو وزیراعلی بنانے والوں میں صف اول میں شامل رہے ۔
آیا اس میں پارٹی سربراہ کی رضا مندی شامل تھی کیوں کہ اس دورانیہ میں آپ مکمل خاموش رہے ؟اگر محترمہ زینت شاہوانی کا باپ کے امیدوار کو ووٹ دینا غلط تھا تو پھر پارٹی کے ارکان اسمبلی کا فیصلہ بھی غلط ہے اگر صوبے میں حکومت ساز ی میں پارٹی کے ارکان اسمبلی کا کردار درست تھا تو پھر زینت شاہوانی کو کس با ت کی سزا دی گئی؟انہوںنے کہاکہ سینیٹ الیکشن میں احسان شاہ کی اہلیہ کو سینیٹر منتخب کرانے سے متعلق مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں آپ نے کہا کہ محترمہ نسیمہ احسان کو منتخب کرانے کا فیصلہ کیچ میں پارٹی کو مضبوط کرنے کیلئے کیا بقول آپ کے احسان شاہ نے نہ صرف پارٹی میں شامل ہونے کا وعدہ کیا ہے بلکہ آئندہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ پر حصہ لیں گے۔ کیا آپ نے اپنے اس فیصلے سے مکران ڈویژن بالخصوص کیچ کے سیاسی کارکنوں کونظرانداز کرکے آئندہ اقتدار کو ترجیح نہیں دی ؟آپ کے اس فیصلہ سے تاثر ملتا ہے کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کیلئے آپ کا اعتماد سالوں سے جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں پر نہیںبلکہ اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔ یہ دوغلی پالیسیاں میری سمجھ سے بالا تر ہیں ،بلوچستان اسمبلی کے پراسرار ان کیمرہ اجلاس میں پارٹی کے ارکان اسمبلی بھی موجود تھے آیا ارکان اسمبلی کی اجلاس میں شرکت کا فیصلہ پارٹی اداروں کا تھا ؟ اگر ایسا نہیں تھا تو یہ بات ثابت ہوئی کہ پارٹی میں فیصلے اداروں کی بجائے افراد کرتے ہیں اور فرد واحد کے فیصلوںکا خمیازہ بلوچستان کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
حقیقی سیاسی کارکنوں اور بلوچستان کے عوام کے سامنے آنے والے تضادات کے بعد پارٹی اپنے غلط فیصلوں کا ملبہ مجھ جیسے لوگوں پر ڈال کر جان چھڑانا چاہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک سیاسی عمل کا حصہ بننے اور تکالیف برداشت کرنے آئے تھے تاکہ اپنے لوگوں کیلئے خوشحالی لائیں مگر آپ نے تو میرے خاندانی پس منظر کوبھی فراموش کیا قوم پرستی کی سیاست ہمارے گھر عزیز آباد مستونگ سے شروع ہوئی جہاں میر ا یونٹ قائم کرنے میں پارٹی کے ذمہ داروں نے رکاوٹیںحائل کیں حالانکہ یہ بات آپ کو بھی میں نے گوش گزار کی تھی جس کا مطلب شروع دن سے آپ نے مجھ جیسے سیاسی کارکنوں کو سیاسی عمل سے ٹیکنیکل طریقے سے باہر رکھا تاکہ غیر سیاسی فیصلے مسلط کئے جاسکیں۔ انہوںنے کہا کہ پارٹی سربراہ نے مجھے اظہار وجوہ کا نوٹس دے کر مجھ سے ایک ہفتہ میں جواب طلب کیا تھا میرا بھی آئینی و جمہوری حق ہے کہ ہفتے کے اندرتینوں مراسلوں کے جوابات تفصیلا اور تحریری طور پر مجھے دیئے جائیں ۔