اسلام آباد: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ریکوڈک پر بلوچستانیوں کی مرضی کے بغیر کوئی معاہدہ قبول نہیں ،مری کے لوگ خوش قسمت ہے کہ پارلیمنٹ اور میڈیا نے ان کی بات سنی بلوچستان میں ایک قبر سے 250لاشیں نکالی گئی ،سی ٹی ڈی کی جانب سے ایک رات میں19لوگوں کو ماردیاجاتاہے۔
لیکن بلوچستان کے لوگوں کی کوئی نہیں سنتا ،مرکزی حکومت جنوبی پنجاب تو نہ بناسکیں البتہ جنوبی اور شمالی بلوچستان بنانے والوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے حرکتوں سے باز آئیں ،سیندک اور ریکوڈک سے کتنا سونا اور تانبا نکالاجاچکاہے کیا کوئی اس کا حساب دے سکتاہے ؟ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں منی بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا سانحہ مری میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی ہے آفات آتے رہتے ہیں آفتیں جہاں کہی بھی آتی ہیں اس خطے کے حکمرانوں کے امتحان کیلئے آتے ہیں لواحقین کے ساتھ ہم اظہار افسوس ہی کرسکتے ہیں کیا اس میں حکومت کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پیشگی حکمت عملی کرتے اس سے پہلے بھی بہت سے واقعات ہوچکے ہیں قدرتی حادثات بھی ہوسکتے ہیں حکومتی حادثات بھی ہوچکے ہیں۔
مری کا علاقہ اسلام آباد کے قریب ہے اس لئے ان کی چیخ وپکار جلدی سنی گئی یہاں کے ایوان میں بھی سنی گئی میڈیا میں بھی سنی ان کی آواز پہنچ گئی بلوچستان چونکہ اسلام آباد سے دور ہے وہاں کے عوام کی چیخیں کسی کو سنائی نہیں دیتے مری میں تو قدرتی آفات آئی بلوچستان میں حکومتی اور انسانی آفات جن پر کوئی روشنی بھی نہیں ڈالتا بلوچستان میں ایک ہی قبر سے 250افراد کی لاشیں برآمد ہوتی ہے ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا اگر اس بارے میں کوئی بات کرے تو وہ ہمارے پر جل جاتے ہیںسی ٹی ڈی کی جو کارروائیاں ہیں اس میں ایک ہی رات میں 19افراد ہلاک کیے جاتے ہیں دوسرے دن اخبارات میں خبر چھپتی ہے کہ اتنے دہشت گرد مارے گئے ان کے قبضے سے گولہ بارود برآمد ہوا ہے لیکن آج تک سی ٹی ڈی کے کسی اہلکار کو چوٹ تک نہیں لگی اور نہ ہی کسی گاڑی کا شیشہ ٹوٹایہ کیسے دہشت گرد ہیں جن ک ہاتھ میں کوئی پتھر بھی نہیں ہے اور یہ سلسلہ آج کا نہیں کئی برسوں جاری ہے اب تو دشت میں نامعلوم افراد کی تدفین کیلئے ایک قبرستان بنائی گئی ہے تاکہ ان نامعلوم افراد کو وہاں دفن کیا جاسکے انہوں نے کہا کہ منی بجٹ پر بات کروں اس پر بلاول بھٹو،شہباز شریف نے جس طرح اس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے منی بجٹ کے مخالفت میں بات ہوئی ہے حق میں کسی نے بات نہیں کی پاکستان میں ٹیکس نہیں ہے تو صرف موت پر ٹیکس نہیں ہے باقی ہر شعبے پر ٹیکس لگادیا گیا ہے۔
اس ملک میں سب سے سستی چیز موت ہے جو بغیر مانگے مل جاتی ہے حکومت نے اگر بہتری لانی ہے تو ٹیکس حکومت کی غلط بیانہ پر لگائے عدلیہ کے غلط فیصلوں پر لگائے جھوٹ پر ٹیکس لگائے، بد فعلی پر ٹیکس لگائے ،نیب کے غلط فیصلوں پر ٹیکس لگائے اپوزیشن کے غلط رائے پر ٹیکس لگائے تو پھر ملک کے عوام کی حالت بہتر ہوسکتی ہے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ میں بلوچستان کی طرف آتا ہوں مہنگائی میں باقی ملک کی طرح بلوچستان کی عوام بھی متاثر ہے بے روزگاری کا بلوچستان میں یہ عالم ہے کہ حکومت سے تو روزگار کی توقع نہیں بلوچستان جو قدرتی معدنیات سے مالامال صوبہ ہے ماہی گیری سے وہاں کے عوام نے روزگار خود اپنے کیلئے پیدا کیا ہے اس گوادر میں جس کو کئی حکمرانوں نے سنوارتے سنوارتے ملک کے ترقی کا جو جھومر بنایا آ ج اس گوادر کے عوام سراپا احتجاج ہیں بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ وہاں کے ماہی گیر جو سالاسال سے سمندر کے پھیٹ سے اپنے لئے مچھلی پکڑ کر رزق تلاش کرتے تھے لیکن اب حکومتی اہلکاروں کے پرچی کے بغیر یہ ممکن نہیں بلوچستان کے لوگوں کے اکثریت کا روزگار بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہے حکومت نے وہ بھی بند کیا ہے لوگ جائے تو کہاں جائے روزگار نہیں دیا جارہاہے جن کے پاس روزگار ہے ان سے روزگار چھینا جارہاہے لوگ جائے تو کہا ں جائے بجلی نہ ہونے کے برابر ہے حالیہ جو سیلاب آیا ہے کوسٹل بیلٹ میں وہ گوادر جس کے ترقی پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔
لیکن گوادر کے عوام کو آج بھی پینے کے صاف پانی میسر نہیں گوادر کے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں مجھے بتایا جائے کہ 65ارب ڈالر جو گوادر کے ترقی پر خرچ کیے گئے وہ کہاں گئے ان میں سے نہ موجودہ حکومت اور نہ ہی ماضی کی حکومت بتاسکے کہ وہ رقم کہاں خرچ ہوئے خرچ ہوتے تو گوادر کے روٹ پر خرچ ہوتے بلوچستان میں کوئی رقم خرچ نہیں کیا گیا سردار اختر مینگل نے کہاکہ میں ریکوڈک کی جانب آتا ہوں یہ مسئلہ آج کا نہیں یہ 2002میں ایک معاہدہ ہوا تھا آسٹریلیا کے کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا کہ پانچ فیصد حصہ بلوچستان 45فیصد وفاقی حکومت اور 50فیصد ان کمپنیوں کا حصہ طے ہوا اور یہ معاہدہ چلتے چلتے سپریم کورٹ میں آیا سپریم کوٹ کا اس پر فیصلہ آیا جس کے روشنی میں اس کمپنی کے ٹھیکے کو منسوخ کیا وہ کمپنی بین الاقوامی عدالت میں چلا گیا جس پر پاکستان کے خلاف جرمانہ عائد کیا گیا آج سے دو سال پہلے وزیراعظم کایہ بیان سامنے آیا کہ پاکستان کے قرضوں کا واحد حل ریکوڈک کا معاہدہ ہے جس کا معاہدہ کرکے پاکستان کے قرضوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
باقی فیصلوں میں بلوچستان کو نہیں پوچھا جاتا ہے لیکن قرض اتاروں میں سب سے پہلے بلوچستان سوئی سے1953میں گیس نکالا گیا پاکستان کے کونے کونے تک پہنچ گیا لیکن آج تک ڈیرہ بگٹی گیس سے محروم ہے بلوچستان کے خواتین آج بھی لکڑیاں جلاکر کھانا پکاتی ہے او جی ڈی سی اور سوئی سدرن گیس نے بلوچستان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ سب کو یاد ہے گیس بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہے پی پی ایل کی ملکیت نہیں سیندک کے نام پر سوئی کے نام پر سی پیک کے نام پر اب ریکوڈک کے نا م پر بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے نہیں دینگے بلوچستان کے وسائل کو جمعہ بازار کی طرح لوٹا جاتا ہے آج بلوچستان میں جو حالات ہیں ایسا کوئی فیصلہ نہ کیا جائے جس سے مزید حالات خراب ہو بلوچستان کے کسی بھی پارٹی سے تعلق ہو ہم سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر صوبے کے عوام کا پہلا حق ہے سیندک سے اربوں روپے کا سونا تانبا اور دیگر معدنیات لوٹا گیا لیکن آج تک کوئی حساب نہیں کوئی بتا سکتا ہے کہ اب تک کتنا سونا نکلا ،تانبا کتنا نکلا کوئی حساب دے سکتا ہے۔
بلوچستان کے معدنیات مفت کا مال نہیں بلوچستان کے وسائل کو کسی صورت لوٹنے نہیں دینگے 1947سے لیکر آج تک بلوچستان کے وسائل کو لوٹا جارہاہے ہم لڑنہیں سکتے آپ طاقتور لوگ ہیں آپ کے پاس طاقتور فوج ہے ہم پر کئی بار فوج کشی کی گئی لیکن ہم اپنے وسائل کو مزید لوٹنے نہیں دینگے انہوں نے کہا کہ ایک بات کی میں وضاحت کروں کہ پاکستان کے آئین میں سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب یہ سدرن بلوچستان کس صوبے کا نام ہے وزراء بھی اس کا ذکر کرتے ہیں اگر صوبہ نہیں ہے تو مجھے بتایا جائے کہ جو لوگ بلوچستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوگا۔