سروسز ہسپتال لاہور نے مجرمانہ غفلت سمیت متعدد الزمات ثابت ہونے پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے 4 ارکان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔
ہسپتال انتظامیہ نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کمیشن اسلام آباد اور محکمہ صحت پنجاب کے حکام کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی میں ملوث ڈاکٹرز کی ڈگریاں معطل کرنے کی درخواست کی ہے۔
ادارے نے پنجاب اسپیشلسٹ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور اور کالج آف فیزیشن اینڈ سرجنز کراچی سے بھی ان ڈاکٹرز کے خلاف رولز اینڈ ریگولیشنز کے مطابق کارروائی کا آغاز کرنے کا کہا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ سروسز ہسپتال کی اعلیٰ انتظامیہ کی جانب سے محکمہ صحت کے اعلیٰ اداروں سے رابطہ کر کے مسلسل پریشانی کا سبب بننے والے میڈیکل اسٹاف میں سے کچھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
14 جنوری کو ڈاکٹرز کی مجرمانہ غفلت سے 30 سالہ شخص کی موت کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی وارڈ کی بندش اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر پر حملہ کرنے پر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
آفیشل خط میں ادارے نے ڈاکٹرز کی غیر قانونی سرگرمیوں کے حقائق تفصیلات کے ساتھ فراہم کیے گئے ہیں۔
محکمے نے ان ڈاکٹرز کے خلاف ثبوت کچھ وڈیو کلپس اور آفیشل رسیدیں بھی پیش کی ہیں کیونکہ انہوں نے ہسپتال کے ریکارڈ میں رد و بدل کرکے ہسپتال انتظامیہ کو گمراہ اور دھوکا دینے کی کوشش کی تھی تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ جوان مریض حامد کو ہسپتال میں مردہ حالت میں لایا گیا تھا۔
ہسپتال انتظامیہ نے قرار دیا کہ حامد ایک عام شکایت کے ساتھ ایمرجنسی میں چل کر آئے، صبح 5 بج کر 52 منٹ پر انہوں نے ایڈمیشن سلپ حاصل کی تاہم ڈاکٹرز نے ایک گھنٹے یا اس سے زائد تک ان کو کسی بھی قسم کی طبی امداد فراہم نہیں جو ان کی موت کا سبب بنی۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ میڈیکل حکام نے مجرمانہ کام کرتے ہوئے مریض کے داخلے کی نئی پرچی 6 بجکر 43 منٹ پر نکالی اور یہ کہ کر ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کردیا کہ مریض کو مردہ حالت میں ہسپتال میں لایا گیا تھا۔
سروسز ہسپتال نے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے والے عہدیداروں کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا عادی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور مریضوں کی نگہداشت میں خلل ڈالنے کے لیے ایمرجنسی کو بھی بند کردیتے ہیں۔
انتظامیہ نے ڈاکٹرز کے ہسپتال میں سروس ریکارڈ، ان کی سرگرمیوں، ان کے خلاف ثابت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں، ان کے مریضوں کے تیمارداروں اور اہل خانہ کے ساتھ رویے کی تفصیلات فراہم کی ہیں جو لاہور کے اہم سرکاری ٹیچنگ ہسپتال کے لیے بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
سروسز ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر احتشام الحق نے سفارش کی ہے کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹرز ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں، کم قابلیت کے مجرم ثابت ہوچکے، تخریب کارانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں لہٰذا ان سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا چاہیے۔
. انہوں نے ڈاکٹر سلمان حسیب ، ڈاکٹر محمد عمران ، ڈاکٹر سلمان سرور اور ڈاکٹر محمودلحسن کو مرکزی ملزمان قرار دیتے ہوئے پی ایم سی اور محکمہ صحت پنجاب سے ان افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی۔
ڈاکٹر حسیب کے بارے میں ایم ایس نے بتایا کہ وہ انسٹیٹیوٹ کا ملازم بھی نہیں ہے۔
ایم ایس کے خط کے مطابق ڈاکٹر سلمان مبینہ طور پر ہسپتال میں غنڈاگردی کو فروغ دے کر ڈسپلن کو برباد کررہا ہے۔
ایم ایس نے مزید تجویز دی کہ ڈاکٹر سلمان کو سروسز ہسپتال پرنسل کی جانب سے 17 ستمبر 2021 کو بھیجی گئی پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کی توسیع نہیں دی جانی چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر محمد عمران کی تین ماہ کی مختصر مدت ملازمت کو فوری طورپر ختم کرنا چاہیے اور انہیں قانونی کارروائی کے لیے ایس ایچ اینڈ ایم ای ڈی کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی جانی چاہیے۔
انہوں نےڈاکٹر کے سروسز ہسپتال میں داخلے پر فوری پابندیکی سفارش کی کیونکہ وہ ڈاکٹرز کے درمیان چھوٹے چھوٹے امور پر مسلسل بے چینی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔
خط میں مزید سفارش کی کی گئی کہ ڈاکٹر عمران کو مستقبل میں محکمہ صحت پنجاب میں کوئی نوکری نہ دی جائے۔
ایم ایس نے یہ سفارش بھی کی کہ ڈاکٹر سلمان سرور کو ایس ایچ اینڈ ایم ای ڈی رپورٹ کرنے کی ہدایت کرنی چاہیے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے ان کی ٹریننگ اور رجسٹریشن کے خاتمے کے لیے یو ایچ ایس سے درخواست کرنی چاہیے۔
انہوں نے تجویز دی کہ ڈاکٹر محمود الحسن کا ٹرانسفر کرنا چاہیے اور ان کے تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پیڈا ایکٹ 2006 کے تحت ایکشن لینا چاہیے۔
ڈاکٹر احتشام نے کہا کہ جب بھی سروسز ہسپتال میں کوئی مسئلہ اٹھتاہے تو یہ ڈاکٹرز ایم ایس کے دفتر کا محاصرہ کرکے احتجاج شروع کردیتے ہیں۔
14 جنوری کو بھی حامد کی موت کے بعد انہوں نے ایم ایس کے دفتر کا گھیراؤ کیا، شعبہ حادثات و ایمرجنسی ، ان ڈور، آؤٹ ڈور محکموں اور صحت عامہ فراہم کرنے والے ہسپتال کے دیگر شعبوں کو بند کردیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ان ڈاکٹرز کا پہلا ایسا قدم نہیں ہے، اپنی پسند کے فیصلے لینے کے لیے ایم ایس سمیت تمام شعبوں کے سربراہوں پر دباؤ ڈالنا ان کی عادت ہے ۔
ایم ایس نے مزید کہا کہ اس طرح کے عمل کو روکنے کےلیے ڈاکٹرز کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔
ڈاکٹر احتشام کا کہنا تھا کہ سفارشات کی روشنی میں پی ایم سی اسلام آباد سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان ینگ ڈاکٹرز کی ڈگریوں کو منسوخی کرے۔
اسی طرح انہوں نے یو ایچ ایس کے وائس چانسلر کو ڈاکٹر سلمان سرور کی ڈگری کی منسوخی کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو شعبہ طب کے پیشہ ورانہ ضابطے کے خلاف ہیں۔