|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2022

یہ مضمون روز نامہ ڈان کے 22 -27 دسمبر2021 کے شمارے میں چھپا۔تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسکا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں حا ضر ہے۔مجاز حلقے بار بار اسکا اعادہ کرتے ہیں کہ مادری زبان اپنے بولنے والوں کو ایک منفرد اور مخصوص شناخت سے نوازتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ زبان ایک طاقت ہے۔

مادری زبان اپنے بولنے والوں کو انکے موقف کے جامع اظہار اورگفتار میں روانی کی بے پناہ قوت عطا کر تی ہے۔دوسری جا نب یہ گروپوں اور قوموں کے ما بین اقتدار کی تقسیم کے گفت و شنیدمیں ایک خفیہ طاقت ہے۔زبان غلبہ پانے اور محکوم رکھنے دونوں کا ذمہ دار ہے۔غلبہ خفیہ طور پر کمزور گروپوں کی سیاسی ،معاشی،سماجی اور ثقافتی پہلوؤںکو گھیر لیتی ہے۔ اس طرح کمزوروں کے حصے میں قناعت اور جمود ( status-quo )ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک زبان دوسری زبان کو’ غیر ‘کہنے پر تیار بیٹھاہے۔ مزید یہ کہ زبان بالا دست کلچرکی زیر دست کلچرپر قبضہ کی خواہش کو قوت بخشتی ہے۔اسکا مطلب محکوم قوم پر قبضہ کر کے اسے ختم کر نا ہے اگر محکوم قوم اسے کچلنے کی طاقت نہ رکھتی ہو۔یہ کام حاکم قوم کی طرز زندگی کو محکوم پر مسلط کر کے ہی عمل میں لایا جاتا ہے۔گو کہ اعلانیہ یہ نہیں کہا جاتا لیکن حقیقت میں ہو تا یہی ہے۔

کہا یہ جا تا ہے کہ یہ کام بڑے مقا صد ، جیسے ثقافتی ترقی ، سماجی ہم آ ہنگی،قومی یکجہتی اور یکسا نیت کے لئے کیا جا رہا ہے۔اس طر ح کے منصو بے خول (shell )کا کام کرتے ہیں اور حقیقت(kernel )کو چھپاتے ہیں۔مختلف گروہوں میں زبان کی سیاست عام طور پر صرف زبان تک محدود نہیں ہو تی بلکہ یہ کثیر جہتی رجحان کا احاطہ کرتی ہے۔زبان اپنے اندر اقتدار کی جنگ جو کئی انداز میں لڑی جاتی ہے کو چھپاتی ہے۔ہم یہاں ماضی قریب کے چند واقعات کا جائزہ لیں گے جو تھے تو اقتدار کے لئے لیکن سا منے زبان کا مسئلہ تھا۔بر صغیر پر قبضہ کے بعد انگریزوں نے مقامی زبانوں میں سے اردو کو چن لیاجو اتر پر دیش کے شہری مرا کز کی زبان تھی۔

اسکے علاوہ یہ مغل دربار میں فارسی، جو خود ایرانی سامراجی کلچر کی نشانی تھی،کے ساتھ بھی رائج تھی۔اردو کی سر پرستی دہلی اور لکھنو کے حکمران اشرافیہ نے کی جنکی اکثریت باہر سے آ ئے مسلمانوں ،زیادہ تر سنٹرل ایشیا، ایران اور عرب سے تھی۔یہ مراعات یافتہ لوگ مقامی اخلاقیات(ethoes ) سے منحرف تھے۔اگر چہ یہ طبقہ ایک چھوٹی سی اقلیت تھی لیکن ان کے ہاتھ میں سیاسی و عسکری (politico-military )طاقت تھی۔ اس لئے وہ بلا شرکت غیر ے مراعات کا لطف اٹھاتے تھے۔انگریزوں نے تاریخی جبر کے تحت طاقت کے وہی ثقافتی اوزار استعمال کئے جو انہیں سابقہ مغل ڈھانچہ سے وراثت میں ملے۔اس طرح انہوں نے اردو کو برصغیر میں رابطے کی زبان (langua-franca )کے طور پر فروغ دیا۔وہ آسان سمجھ کر(conveniently ) یہ بھول گئے کہ کوئی بھی ایک زبان کئی زبانیں بولنے والے بر صغیر کی نما ئندگی نہیںکر سکتا۔ انیسویں صدی میں انہوں نے فورٹ ویلیم کالج کلکتہ میں ،’اردو ترقی پروجیکٹ‘ شروع کی۔

ہندو دانشور جو خود بھی اردو سے ملتی جلتی’ہندی زبان ‘ بولتے تھے ،نے اسی صدی کی آ خری تین دہائیوں میں بالا دستی کو فروغ دینے والی اس پرو جیکٹ کے خلاف ردعمل دکھایا۔اس سے اردو ،ہندی تصادم نے جنم لیا۔اور یہ بیسویں صدی کے تیسری دہائی میں عروج کو پہنچا، جب اردو کے حما یتیوں نے مسلمانوں سے کہا، اور ان سے بھی جن کی زبان اردو نہ تھی، کہ مردم شماری میں وہ اردو کو اپنی مادری زبان لکھائیں۔جبکہ ہندی زبان کے حمایتیوں نے اسی طرح ہندوؤں سے ہندی زبان کو اپنی مادری زبان بتانے کی مہم چلائی۔اردو اور ہندی کے ہمدرد دیدہ دلیری سے جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے تاکہ حقیقی تضاد کو چھپا سکیں جس نے ہندوستان پر صدیوں کی مسلمان حکمرانی سے جنم لیا۔یہ اقتدار کی چپقلش کی جانب اشارہ تھا۔

جب برطانوی دور میں کھیل کا میدان تاریخی لحاظ سے محروم ہندو اکثریت اور بالا دست مسلم اقلیت کے ما بین کسی قدر برابر ہواتھا۔اقتدار کی خاطر یہ پہلا وسیع تصادم زبان کے جھگڑے کی صورت میںسامنے آیا۔اس تصادم میں فریقین نے ایک اور حقیقت چھپادی وہ یہ کہ زبان کی جڑیں عقیدے کی بجائے زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔اردو اسلامی نہیں اور نہ ہندی ہندو ہے۔کئی ہندو خاندان اردو بولتے ہیں اور اسی طرح کئی مسلمان،جینزاور بدھسٹ ہندوستان میں ہندی بولتے ہیں۔اس طرح دونوں زبانوں کو کئی عقیدوں کے لوگ بولتے ہیں۔زبان کا تصادم حقیقت میں ہندو ،مسلم کے ما بین اس کھائی کو بیان کر تی ہے جسے وہ پاٹنے میںناکام رہے۔اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے دو نوں فریقوں نے زبان کو علامت کے طور پر استعمال کیا۔یہ پریشان کن ہے کہ ہندو مسلم تضاد نے اگر چہ مسلمانوں کے لیئے الگ ملک پاکستان وجود میں لاکر حل نکالنے کی کوشش کی لیکن زبان کا تصادم اقتدار کی لڑائی کی خاطر ختم نہ ہو سکا۔اب یہ دو فرقوں کی بجا ئے ایک فرقہ کے ما بین سامنے آیا۔

پہلے یہ تصادم ہندو اور مسلم کے درمیان تھا اب یہ بدل کر بنگالی اور غیر بنگالی مسلمان کے ما بین شروع ہوا۔غیر بنگالی اقلیت میں تھے لیکن بالا دست تھے۔ان میں اتر پر دیش، پنجاب اور موجودہ خیبر پختونخوا سے آئے لوگ شامل تھے، جو تحریک پاکستان میں آگے آگے تھے۔انہوں نے بنگال ( مشرقی پا کستان ) میں بنگالیوں کی بجائے پاور اپنے ہاتھ میں لے لی ۔گوکہ بنگالیوں نے تحریک پا کستان میں ہراول دستے کا کردار اداکیا تھا۔یہاں پر بھی مغربی پا کستان سے آئے اشرافیہ ٹولے نے زبان کو سیاسی مہم کے طور پر استعمال کیا تاکہ وہ اپنی بالا دستی قائم رکھ سکیں ۔اس مسئلے پر بانی پاکستان محمد علی جناح جو کوئی بھی مقا می زبان نہیں جا نتے تھے ما سوائے اپنی مادری زبان گجراتی کے، کو انکے اتر پر دیش کے مہاجر مشیروں نے غلط مشورے دیئے ۔انہوں نے 1948 میں ڈھاکہ جا کر پرزور انداز میں اعلان کیا کہ ’’اردو اور صرف اردو پا کستان کی واحد قومی زبان ہوگی۔‘‘

اس اعلان سے بنگالی اکثریت کی عزت نفس مجروح ہوئی اور فوری رد عمل کا اظہار کیا ۔بنگالی جوسیاسی لحاظ سے بیدار تھے نے اس اعلان کو غلبے کی سنسنا ہٹ(Simmering attempt at domination ) جانا۔انہوں نے محسوس کیا کہ اس آزادی سے صرف انکے آقا تبدیل ہوئے۔گوروں کی جگہ بھورے جاگیرداروں ، سول اور ملٹری بیورو کریٹوں نے لے لی۔موجودہ حکمران ان کے لیئے اتنے یا اس سے زیادہ اجنبی تھے جتنے سا بقہ حکمران تھے۔انہوں نے محسوس کیا کہ نعروں کی سیاست جیسے قومی یکجہتی، قومی سا لمیت محکومی کے اوزار (tool )ہیں۔