|

وقتِ اشاعت :   January 22 – 2022

کوئٹہ: جوائنٹ ایکشن کمیٹی و اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن جامعہ بلوچستان کے صدر پروفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ بڑیچ،ایمپللائز ایسوسی ایشن کے صدر شاہ علی بگٹی، آفیسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نذیر احمد لہڑی و اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے نائب صدر فرید خان اچکزئی و دیگر ممبران نے گذشتہ دنوں صوبائی وزیر خزانہ نورمحمد دمڑ کی زیرصدارت صوبے کی سرکاری جامعات کی چھٹی یونیورسٹیز فنانس کمیشن کے اجلاس کو خوش آئند قرار دیا اور صوبے کے 2021_22 کے سالانہ بجٹ میں صوبے کے تمام سرکاری جامعات کیلئے گرانٹس ان ایڈز کی مد میں ڈھائی ارب روپے مختص کرنا گو کہ مٹبت اقدام ہے۔

لیکن موجودہ دور میں اعلی تعلیم کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے آنے والے سالانہ صوبائی بجٹ میں کم از کم 5 ارب روپے مختص کیا جائے گا، بیان میں واضح کیا کہ چونکہ جامعہ بلوچستان صوبے کی مادر علمی ہے اور جامعہ بلوچستان میں شعبہ جات کی تعداد تمام دیگر جامعات سے زیادہ ہیں جس میں بائیس سوسے زائد اساتذہ کرام، آفیسرز اور ملازمین خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور جامعہ سینکڑوں ملازمین پینشن لے رہے ہیں اور ہزاروں طلبا وطالبات پڑھ رہے ہیں۔

بیان میں الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جامعہ کے موجودہ و سابقہ انتظامی سربراہان اور خزانہ آفیسر کی نااہلیت کی وجہ سے جامعہ بلوچستان سخت مالی بحران کا شکار رہا ہے نتیجے میں ملازمین کو وقت پر مکمل تنخواہ اور پینشنرز کو پینشنز کی ادائیگی نہیں ھورہی جبکہ ملازمین کو منظور شدہ الانسسز جس میں44 فیصد ہاوس ریکوزیشن، میڈیکل، ڈسپیریٹی، یوٹیلیٹی الاونس گروپ انشورنس ،اردلی الاونس اوور ٹائم، ہاوس بلڈنگ ایڈوانس و دیگر سے محروم ہیں اس لئے صوبائی وزیر خزانہ سے بھرپور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ گرانٹس ان ایڈز میں کم ازکم 50 فیصد حصہ جامعہ بلوچستان کو دیا جائے ،بیان میں جامعہ بلوچستان پر مسلط غیر قانونی وائس چانسلرکی اس اہم اجلاس سے غیر حاضری پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف اساتذہ، آفیسرز اور ملازمین کو مکمل تنخواہ اور منظور شدہ الاونسز اور پینشنرز کو پینشنز سے محروم رکھا گیا ہیں جبکہ دوسری طرف اس اہم اجلاس سے غیر حاضر رہے ہیں جو ناقابل معافی جرم ہے۔