عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کی ہے اور ریاست کے اندر موجود قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ایمانداری کے ساتھ نبھاتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر کا معاشرے سے خاتمہ کریں اوران تمام منفی سرگرمیوں جو مہذب معاشرے کے لیے زہرقاتل ہیں ان کا قلع قمع کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے مگر افسوس کہ کئی دہائیوں سے ملک میں پولیس کے اندر بڑے پیمانے پر اصلاحات نہیں ہوئیں اور نہ ہی کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس رکھا گیا کہ پولیس محکمے کے اندر موجود جرائم کی سرپرستی اور براہ راست ملوث ہونے والے آفیسران و اہلکاروں کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے محکمے کے اندر موجود کالی بھیڑوںکو نکالاجاسکے ۔
اسی وجہ سے نہ صرف جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ ریپ سمیت دیگر سنگین نوعیت کے واقعات رونما ہورہے ہیں کیونکہ جب خود محافظ ہی جرائم پیشہ افراد کا روپ دھار کر ہر قسم کی برائی میںملوث ہوں گے تو کس طرح سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ہم قانون بناکر معاشرے کو بہتری کی جانب گامزن کرسکتے ہیں۔ حکمران آتے گئے اور دعوے کرتے رہے کہ پولیس سمیت ہر محکمے کے اندر اصلاحات لاکر ملک کو بہتری کی جانب گامزن کیا جائے گا مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔ اب اس کانتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں سنگین نوعیت کی وارداتوں میں پولیس محکمے کے آفیسران کے ملوث ہونے کے انکشافات سامنے آرہے ہیں جس کی واضح مثال کراچی شہر ہے جو پورے ملک کی معیشت کا پہیہ چلاتا ہے جہاں جرائم کی شرح میں گزشتہ چند ماہ کے دوران اضافہ دیکھنے کو ملا ہے
اور ساتھ ہی ٹارگٹ کلنگ کا بھی سلسلہ ایک بار پھر سے شروع ہوا ہے اگر ملوث پولیس آفیسران کو قانون کی گرفت میں نہ لایا گیا اور سخت سزا نہ دی گئی تو اس کے آگے چل کر بھیانک نتائج سامنے آئینگے کیونکہ ما ضی میں بھی سندھ پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں تھی بلکہ یہ مثالیں دی جاتی تھیں کہ تھانے فروخت ہوتے تھے، منشیات فروشوں کی سرپرستی کی جاتی تھی اور ڈکیتوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے انہیں مکمل چھوٹ دی جاتی تھی جس کی وجہ سے شہر کا امن تہس نہس ہوکررہ گیا تھا۔
اب ایک بار پھر یہ انکشاف ہوا ہے کہ بعض پولیس اہلکار حالیہ کراچی کے جرائم کی وارداتوں میںملوث ہیں۔کراچی پولیس میں ڈکیتی میں ملوث پولیس اہلکار فرزند علی کے انکشاف کے بعد اچانک سے کھلبلی مچ گئی ہے۔ ضلعوں میں تعینات اہلکاروں کی سکروٹنی شروع کردی گئی۔ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے 39 افسران و اہلکاروں کو ہیڈ کواٹر ریزور یونٹ ٹرانسفر کردیا حکم نامہ کے مطابق ریزور یونٹ میں شامل افسران و اہلکار واپس ڈسٹرکٹ میں تعینات نہیں ہونگے۔ریزور یونٹ میں ٹرانسفر ہونے والوں میں 6 سب انسپکٹر، 12 اے ایس آئی اور 9 ہیڈ کانسٹیبل شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ٹرانسفر ہونے والے افسران و اہلکاروں کے خلاف مقدمات اور سنگین شکایتیں ہونے پر کیا گیا ہے جبکہ فہرست میں شامل تمام افسران و اہلکار وںکو مکمل انکوائری کے بعد فیلڈ پوسٹنگ مل سکے گی ۔
انکوائری کلیئر نہ ہونے پر افسران و اہلکاروں کو ریزور یونٹ میں ہی رکھا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو بھی پولیس اہلکار ملوث پائے گئے ہیں ان کو کیا سزا دی جائے گی یا پھر بااثر شخصیات کی مداخلت کے باعث انہیں چند ماہ کے لیے معطل کرکے پھر بحال کیاجائے گا کیونکہ پھر یہی بات آتی ہے کہ ماضی کی مثال سامنے ہے۔ خدارا شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پولیس میںاصلاحات کالانا ضروری ہے یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اگر اس سنگین مسئلے کی جانب سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو دوبارہ بدامنی سراٹھائے گا جو ملک اور عوام کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا اس لیے وسیع ترمفاد میں کالی بھیڑ وںکو نکالنا ضروری ہے۔