|

وقتِ اشاعت :   February 10 – 2022

خواتین کے معاملے میں بعض ممالک میں حساسیت پائی جاتی ہے اور ہر وقت کسی نہ کسی حوالے سے خواتین زیر بحث آتی رہتی ہیں جیسا کہ پاکستان میں عورت مارچ، میرا جسم میری مرضی جیسے معاملات پر بھی زبردست بحث ہوتی ہے بعض حلقے اسے خواتین کا جائز حق جبکہ بعض سلوگن پر مبنی نعروں پر کڑی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ خواتین کو اس طرح کی سلوگن لیکر نہیں آنا چاہئے مگر اس بات کو لیکر کوئی مثبت سوچ سامنے نہیں لاتا کہ خواتین کی جوآزادی ہے۔

اس کو مکمل حقوق اور اختیارات دیئے جائیں ۔بدقسمتی سے ہر ملک میں یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے کسی نہ کسی طرح سے خواتین دباؤ کا شکار ہیں ان پرسماجی بندشیں بہت زیادہ ہیں خواتین کے ہراسمنٹ سے لیکر زیادتی کے متعدد واقعات ہر ممالک میں رپورٹ ہوتے ہیں خواتین خود کوبہت زیادہ غیر محفوظ سمجھتی ہیں ۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ خواتین اپنی دفاع اور حق لینے کے لیے باہمت ہوکر مقابلہ کرسکتی ہیں مگر بعض معاملات پر خاندان کی انا،گھر کے مسائل کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے ۔ ویسے تو یہ بھی تاریخ رہی ہے کہ دنیا میں مظلوم اقوام کی حقوق کے لیے خواتین نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا ہے جن کی مثالیں موجود ہیں اور یہی دلیری بہادری ثابت کرتی ہے کہ خواتین اگر اپنے حقوق کے لیے میدان میں اتریں تو انہیں روکا نہیں جاسکتا ۔یہی کچھ بھارت میں گزشتہ روز دیکھنے کو ملا جب حجاب پہنی مسکان نامی طالبعلم نے کسی ہجوم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی آزادی کا اظہار کھل کر کیا کہ خواتین اپنی مرضی کی مالک خود ہیں ۔بھارتی ریاست کرناٹک میں تن تنہا انتہا پسندوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی باحجاب طالبہ مسکان نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے ہندو دوستوں نے ان کی مدد کی۔

یہ افسوسناک واقعہ بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک کالج میںپیش آیا جب ہندو انتہا پسندوں کے ایک جتھے نے کالج آنے والی مسکان پر دھاوا بول دیا اور طالبہ نے بہادری کے ساتھ ڈٹ کے اس جتھے کا مقابلہ کیا۔بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے مسکان نے کہا کہ میں تنہا ان کا سامنا کرنے کے لیے پریشان نہیں تھی اور اگر مستقبل میں بھی ایسا واقعہ پیش آیا تو میں اپنے حجاب پہننے کے حق کے لیے لڑتی رہوں گی۔مسکان نے کہا کہ جب میں کالج میں داخل ہوئی تو وہ مجھے صرف اس لیے اجازت نہیں دے رہے تھے کہ میں نے برقع پہنا ہوا تھا، اس گروپ کے تقریباً 10 فیصد مرد کالج کے طالب علم تھے۔

جبکہ باقی لوگ باہر کے تھے۔انہوں نے کہا کہ میں کلاس میں صرف حجاب پہنتی تھی جبکہ برقع اتار دیتی تھی کیونکہ حجاب ہمارے دین کا ایک حصہ ہے، پرنسپل نے کبھی کچھ نہیں کہا اور نہ ہی پرنسپل نے ہمیں برقع نہ پہننے کا مشورہ دیا۔مسکان نے بتایا کہ میرے ہندو دوستوں نے میرا ساتھ دیا، میں خود کو محفوظ محسوس کر رہی ہوں، ہر کوئی ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔بہرحال اس پہلو کو بھی دیکھنا ضروری ہے کہ جہاں پر مسکان تنہا ہجوم کے سامنے کھڑی تھی تو وہیں پر موجود ان کے ہندو کلاس فیلو بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے یعنی انتہاء پسندانہ سوچ کے خلاف ہر معاشرے میں لڑنے والے موجود ہیں۔اور کچھ لوگ جو اس طرح کی تنگ نظری پھیلاکر اپنی نظریات لوگوں پر تھونپ کر پابندیاں لگانا چاہتے ہیں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بہرحال خواتین اگر اپنے حقوق کی جنگ قانون کے دائرے میں رہ کر لڑیں تو یقینا بعض حلقے ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہینگے البتہ معاشرے اس وقت ترقی کرتے ہیں جب خواتین کو مردوں کے مقابلے میںبرابر کے حقوق حاصل ہوں، وہ اپنی زندگی کافیصلہ آزادی کے ساتھ کریں ،دباؤ اورپابندیاں مزاحمت کو جنم دیتی ہیں جس کے نتائج پھر خطرناک بھی ثابت ہوتے ہیں جس طرح سے بھارت کے انتہا پسندوں کو منہ کی کھانی پڑی ،مسکان نے ڈٹ کر تنگ نظری کا مقابلہ کیا ،اتنی شہرت اس بہادر خاتون کو ملی کہ روایتی میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کررہا ہے اور سب اس کی سپورٹ میں بات کررہے ہیں جو انتہا پسندوں کی بڑی شکست ہے۔