|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2022

سلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان رقابت کے بجائے صحت مند مقابلے سے پوری دنیاکو فائدہ ہوگا،اس حوالے سے پاکستان ماضی کی طرح اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہے،میری ترجیح اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود ہے، جیو اکنامکس پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں، اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنے کیلئے چین ہمارے لئے مثال ہے، بھارتی حکومت کے مطابق بھارت صرف ہندوؤں کیلئے ہے ، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔

بھارت کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے سے انکار کے باعث زیادہ نقصان اٹھائیگا، اجب ایک بار اسامہ لادن کو امریکیوں نے مار دیا تھا تو مشن ختم ہو جانا چاہئے تھا ،فغانستان میں امریکا کے مقاصد واضح نہ ہونے کے باعث اسے ناکام ہی ہونا تھا،افغانستان کی امداد نہ کی گئی تو انسان کا پیدا کردہ سب سے بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویومیں وزیراعظم نے کہا کہ میں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی، یہ کسی کھلاڑی کا عالمی کھیلوں میں طویل ترین کیریئر تھا۔انہوں نے کہا کہ جو عالمی پائے کے کھلاڑی ہوتے ہیں وہ باقی ماندہ زندگی کمنٹیٹر یا کوچ بن کر یا میڈیا میں جا کے گزارتے ہیں اور ان کیلئے بہت مواقع ہوتے ہیں تاہم جب میں ریٹائر ہوا تو میں کبھی بھی دوبارہ کرکٹ کی طرف نہیں جانا چاہتا تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ خدا نے ہم سب کو بے تحاشا صلاحیتوں سے نوازا ہے تاہم اس صلاحیت کے ساتھ آپ تب ہی انصاف کر سکتے ہیں جب آپ خود کو چیلنج کرتے ہیں، اس طرح آپ زندگی میں مزید اوپر جاتے ہیں اور جونہی آپ خود کو چیلنج کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو آپ روبہ زوال ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو ایسا ہی تخلیق کیا ہے، میں ہمیشہ سے اپنا کھیلوں کا کیریئر ختم ہونے کے بعد اس سے کنارہ کش ہونا چاہتا تھا، میں اْس زندگی سے نہیں جڑا رہنا چاہتا تھا، اس لئے میں نے کھیل سے کنارہ کش ہونے کے بعد پہلے کینسر ہسپتال بنایا کیونکہ اس وقت پاکستان میں کینسر کا کوئی ہسپتال نہیں تھا اور شوکت خانم ملک کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ بھی تھا اور آج بھی ہے اور اب میں نے عطیات سے دوسرا کینسر ہسپتال بنایا ہے اور ابھی تیسرے ہسپتال کی تعمیر کے عمل میں ہوں، اس کے علاوہ دو یونیوسٹیاں بھی بنائی ہیں اور یہ تمام خیراتی ہیں، کوئی کاروباری ادارے نہیں ہیں۔

بنیادی طور پر یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو یونیورسٹی کی معیاری تعلیم کے اخراجات اور کینسر کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ شوکت خانم ہسپتالوں سے تقریباً 75 فیصد لوگ کینسر کا مفت علاج کراتے ہیں اور یونیورسٹیوں میں 90 فیصد طلبہ مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں اسی سمت آگے بڑھ رہا تھا، پھر میں نے سیاست میں جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ بعض بگڑے ہوئے سیاستدان ہمارا ملک تباہ کر رہے ہیں، میرا ایمان ہے کہ ملک غریب صرف بدعنوانی کی وجہ سے ہیں، بدعنوانی قانون کی حاکمیت نہ ہونے کی ایک علامت ہے، ایسا ملک جو اپنے طاقتور کو قانون کے تابع نہیں لا سکتا ’’بنانا ریپبلک‘‘بن جاتا ہے اور اس کے عوام غربت کا شکار ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں سیاست میں آیا، میرا منشور دو اصولوں پر مبنی تھا ایک قانون کی حکمرانی اور دوسرا پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا، یہی وجہ ہے کہ 25 سال پہلے میں سیاست میں آیا، میں 22 سال کی جدوجہد کے بعد آخرکار اس منصب تک پہنچا۔ افغانستان کی صورتحال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکیوں نے افغانستان کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔

ایک کہاوت ہے کہ جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ اسے دہرا کر برباد ہوتے ہیں، لہٰذا جو کوئی افغانستان کی تاریخ جانتا ہے وہ یہ نہ کرتا جو امریکیوں نے کیا، میں وہ شخص تھا جو شروع دن سے کہتا رہا ہوں کہ امریکی افغانستان میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے، انہیں سمجھ ہی نہیں تھی کہ وہ افغانستان میں حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں، آیا وہ قوم تشکیل دینا چاہتے تھے یا وہ جمہوریت لانا چاہتے تھے یا وہ افغان خواتین کو آزادی دلوانے آئے تھے، ان کے کوئی واضح مقاصد ہی نہیں تھے، اگر کچھ تھا تو جب ایک بار اسامہ لادن کو امریکیوں نے مار دیا تھا تو ان کا مشن ختم ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ بظاہر تو وہ صرف القاعدہ سے لڑنے کیلئے آئے تھے مگرالقاعدہ تو افغانستان میں پہلے دو سال میں ہی مٹا دی گئی تھی تو اس کے بعد وہ وہاں کیا کر رہے تھے، امریکیوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ وہاں کیا کر رہے تھے، جب آپ کے سامنے واضح مقاصد ہی نہ ہوں کہ آپ نے ایک ملک پر چڑھائی کیوں کی تو یہ بہرصورت ناکامی پر ہی منتج ہونا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ افغانوں کے کردار کو ہی نہیں سمجھتے، افغانستان کے عوام اپنے ملک پر غیرملکی حاکمیت قبول نہیں کرتے، وہ باہر سے کنٹرول کیا جانا قبول نہیں کرتے، وہ دنیا کے سب سے آزاد منش لوگ ہیں، لہٰذا جو کوئی بھی سمجھتا ہے کہ وہ افغانستان کے لوگوں کو کنٹرول کر سکتا ہے۔

یا ان پر قبضہ جما سکتا ہے تواس نے ان کی تاریخ نہیں پڑھی ہوئی، اس لئے میں 20 سال تک یہ کہتا رہا کہ اس کا کوئی فوجی حل نہیں نکلے گا کیونکہ میں افغانستان کی تاریخ سے واقف ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے کوئی یہ بات نہیں سمجھا کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اپنے اسلحہ کی طاقت پر بہت بھروسہ تھا، وہ خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے، تاہم اگر لوگ آپ کی حکومت کو قبول نہ کرنا چاہیں تو آپ ان پر حکومت نہیں کر سکتے، اگر کوئی لوگ کسی غیرملکی حملہ آور کو قبول نہ کریں تو اس حملہ آور کو زیادہ عرصہ تک انہیں زیرنگیں رکھنے میں مشکلات ہوں گی، اس لئے پہلی بات تو یہ کہ امریکا کا سارا منصوبہ ہی غلط منطق پر مبنی تھا اور اس کے کوئی واضح مقاصد نہ تھے اور اس نے کبھی بھی کامیاب نہیں ہونا تھا، اب 40 سال بعد یہ پہلا موقع ہے کہ درحقیقت افغانستان میں کوئی لڑائی نہیں ہو رہی ہے، وہاں کوئی خانہ جنگی نہیں ہو رہی لیکن افغانستان کو جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ کسی وجہ سے امریکی طالبان کی حکومت اور 4 کروڑ افغان شہریوں میں تفریق نہیں کر پا رہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس سے بچا جانا چاہئے، میں نے ہر فورم پر آواز بلند کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب امریکی وہاں موجود تھے تب بھی آدھی سے زیادہ افغان آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی، جب ایک ملک جو اپنے بجٹ کے 75 فیصد کیلئے غیرملکی امداد پر انحصار کر رہا ہو ، آپ اس کی امداد بند کر دیں اور اس ملک پر پابندیاں عائد کر دیں تو یہ انسان کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران بن سکتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ چین، پاکستان، ہمسایوں، یورپی ملکوں سمیت سب کو جو کام لازماً کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ امریکیوں کو قائل کریں کہ افغانستان کے حوالے سے آگے بڑھنے کا یہ طریقہ نہیں ہے کیونکہ اگر افغانستان میں افراتفری ہوتی ہے تو وہ وجہ جس کیلئے امریکا نے بنیادی طور پر افغانستان کا رخ کیا تھا وہ دہشت گردی تھی اور اگر افغانستان میں افراتفری ہوتی ہے اور طالبان حکومت کمزور ہوتی ہے تو وہ آئی ایس آئی ایس(داعش) جیسے بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میری اولین ترجیح پاکستان کے 22 کروڑ عوام ہیں، ہماری آبادی کا تقریباً 25 سے 30 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے ہے، پاکستان میں ہم گزشتہ 30 سالوں میں خاص طور پر روبہ زوال ہوئے ہیں۔

دو خاندانوں کے ملک لوٹنے کیلئے باریاں لینے کی وجہ سے اور پھر یقیناً دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے، جو پاکستان کیلئے تباہ کن ثابت ہوا، پاکستان کو کبھی بھی جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہئے تھا جہاں امریکہ کو نائن الیون کے بعد سے 20 سالوں میں دو، تین یا چار ہزار لوگوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا، پاکستان کو 80 ہزار افراد کا جانی نقصان ہوا اور ہمیں معیشت میں 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، ہماری اولین ترجیح اس وقت اپنے لوگوں کی دیکھ بھال کرنا ہے، میری حکومت کا سارا زور جیو اکنامکس پر ہے، ہم اپنی معیشت کو بہتر کرنا چاہ رہے ہیں اور اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنا چاہتے ہیں، اس کیلئے ہم چین سے سیکھنا چاہتے ہیں جو چین نے حاصل کیا ہم اس کی وجہ سے چین کو بطور نمونہ دیکھتے ہیں کیونکہ کسی قوم نے اتنے قلیل وقت میں اتنے زیادہ لوگوں کو غربت سے نہیں نکالا جیسا چین نے کیا ہے، میری اصل کوشش یہی ہے کہ میں کیسے لوگوں کو غربت سے نکالوں اور کیسے ملک میں دولت کی پیداوار ہو، ہم سی پیک اور گوادر کو اپنی جیو اکنامکس کیلئے ایک زبردست موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

میرے خیال میں یہ صرف پاکستان اور چین کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہم کسی بھی ملک کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے اس منصوبے کا حصہ بنے اور سی پیک میں سرمایہ کاری کرے، یقیناً مستقبل میں بہت سے معاشی مواقع پیدا ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کرکٹ کی وجہ سے بہت سے پاکستانیوں کے مقابلے میں بھارت کے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہوں، پاکستان اور بھارت میں کرکٹ بہت زیادہ مقبول ہے، کرکٹ کا کھلاڑی ہوتے ہوئے میں نے بھارت میں بہت زیادہ کرکٹ کھیلی ہے، بھارت کے لوگ مجھ سے بہت زیادہ محبت اور احترام کرتے تھے، میں شاید بھارت اور بھارتیوں کو زیادہ تر پاکستانیوں سے بہتر جانتا ہوں، جب میری حکومت اقتدار میں آئی تو بھارت سے تعلقات کی معمول پر بحالی میری ترجیح تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا بھارت کے ساتھ بڑا مسئلہ کشمیر ہے ، بھارت کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دینے سے انکار کرتا رہا ہے جبکہ اس مطالبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ضمانت حاصل ہے، بدقسمتی سے بھارت کشمیریوں کے اس مطالبے کو ٹھکراتا رہا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ بنیادی تنازعہ ہے جس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تسلیم کیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بدقسمتی سے اس مسئلے سے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ نقصان پہنچا ہے اور پہنچے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کیلئے ہے، ایسا کرنا بنیادی طور پر 60 یا 70 کروڑ افراد کو محدود کرنے کے مترادف ہے، اب انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے جن میں 20 کروڑ سے زیادہ مسلمان بھی شامل ہیں، اس لئے بھارت میں ایک مشکل ترین صورتحال ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کو اندر سے مسائل کا سامنا ہے اور اس کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی تنازعات ہیں، ہم یہی امید کر سکتے ہیں کہ بھارت سے بہتر فیصلے ہوں گے لیکن صورتحال بہتر نہ ہونے کا بھارت کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کوئی بھی ملک ہمیشہ اپنی برتری قائم نہیں رکھ سکتا، تمام ملکوں کو ایک اعتماد سازی اور جدجہد کے دور سے گزرنا پڑتا ہے، ان میں ایک عزم ہوتا ہے اور وہ دوسرے ملکوں سے آگے نکل جاتے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے جب وہ ملک سست روی کا شکار ہو جاتا ہے، اس کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے تو اس وقت کوئی دوسرا ملک آگے آ جاتا ہے، یہی انسانی تاریخ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کو سرد جنگ سے بچانا چاہئے، میں چین اور امریکا کے درمیان رقابت کا افسوسناک رجحان دیکھ رہا ہوں، اس کو آسانی کے ساتھ ایک صحت مند مقابلے کی شکل دی جا سکتی ہے، اس صورت میں ساری دنیا کو فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میری توجہ صرف ایک چیز پر مرکوز ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا کیسے خیال رکھا جائے جن میں سے آدھے لوگ مشکل صورتحال میں ہیں، ان میں آدھے غربت کی لکیر سے تھوڑا اوپر اور آدھے اس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس لئے میری سب سے زیادہ توجہ اس بات پر ہے ان لوگوں کی کیسے دیکھ بھال کی جائے اور کیسے ان کو بنیادی سہولتیں پہنچائی جائیں، اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی کیسے قائم کی جائے اور ہم کسی بھی طرح کے تنازعہ سے بچنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ چین اورامریکاکے حوالے سے ہم وہی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان نے 1970 میں ادا کیا تھا، جب ہم نے چین اور امریکا کو ایک میز پر بٹھایا تھا۔

جب ڈاکٹر کسنجر اپنے مشہور زمانہ دورہ چین پر گئے تھے، میں دوبارہ پاکستان کو وہی کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں،بجائے اس کے کہ ہم مخالف بلاکس میں گھر جائیں ، میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال سے دنیا متاثر ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ چین ہرگز ایک اور سرد جنگ نہیں چاہتا۔ وزیراعظم نے سنکیانگ کی صورتحال کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے چین میں اپنے سفیر معین الحق کو خاص طور پر سنکیانگ بھیجا کہ وہ وہاں کی صورتحال کا جائزہ لیں اور وہاں کے معاملات کے بارے میں معلوم کریں، جو رپورٹ انہوں نے دی وہ اس سے بالکل مختلف تھی جو کچھ مغربی میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے، ان کی رپورٹ کے مطابق وہاں تیزی سے ترقی کا عمل جاری ہے، سنکیانگ میں چین کی طرف سے ترقی پر غیرمعمولی توجہ دی جا رہی ہے، جو کچھ ہمیں بتایا جا رہا ہے اس طرح کی کوئی چیز سنکیانگ میں اویغور کے خلاف موجود نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ا مریکابھی پاکستان کا اچھا دوست ہے لیکن یہ چین کی طرح کی دوستی نہیں جو حالات کے نشیب و فراز سے بالاتر ہو، ایسا بھی وقت تھا جب ہمارے امریکا کے ساتھ بہت دوستانہ تعلقات تھے، پھرجب پاکستان کی ضرورت نہ رہی تو انہوں نے پاکستان سے کنارہ کشی اختیار کر لی، اس کے بعد پھر دوستانہ تعلقات بحال ہو گئے۔

مثال کے طور پر پاکستان افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں صف اول میں تھا، اس وقت پاکستان امریکا کا دوست بن گیا، انہوں نے ہماری مدد بھی کی اور وہ ہمارے ساتھ بہت اچھے تھے، جیسے ہی سوویت یونین افغانستان سے چلا گیا تو انہوں نے ہم پر پابندیاں لگا دیں، دس سال بعد جب نائن الیون ہوا پھر ان کے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہو گئے اور جب وہ افغانستان میں کامیاب نہ ہو سکے تو اس شکست کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرایا گیا، ہمارے امریکاکہ کے ساتھ ویسے تعلقات نہیں رہے جیسے چین کے ساتھ ہیں، چین کے ساتھ 70 سال سے ہمارے نشیب و فراز سے بالاتر تعلقات میں ایک تسلسل ہے، پاکستان ہر فورم پر چین کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور چین نے جب کبھی پاکستان کو ضرورت پڑی ہمارا ساتھ دیا ہے، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات عوام کی سطح پر سرائیت کر گئے ہیں، اب عوام کا عوام کے ساتھ رابطہ ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان میں کون اقتدار میں ہے، جو بھی یہاں اقتدار میں آئے گا ہمیشہ اس کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات ہوں گے کیونکہ دونوں ملکوں کی دوستی عوام میں ہے۔