اپوزیشن جماعتوں نے حتمی طور پر فیصلہ کرلیا ہے کہ وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائینگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں اراکین کی تعداد زیادہ ہے جبکہ پنجاب میں ن لیگ کے پاس بھی اراکین کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ،رہ جاتا ہے کے پی کے اور بلوچستان ,یہاں ن لیگ، پیپلزپارٹی کی اکثریت تو نہیں ہے مگر بلوچستان میں اب باپ اور پی ٹی آئی کے درمیان اختلافات کی باتیں سامنے آرہی ہیں جس کااظہار حکومتی حلقوں نے خود کیا ہے مگر یہ کہنا کہ فوری طور پر باپ اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملائے گی اور مرکز میں ان کا ساتھ دے کر اپنی حکومت خود ختم کرے گی، یہ ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح پیپلزپارٹی بھی اپنی حکومت تحلیل نہیں کرے گی یہ ضرور ہے کہ تمام تر زور پنجاب اور مرکز کی حکومت گرانے پر لگائی جائے گی لیکن اہم مسئلہ نمبر گیم کا ہے سینیٹ انتخابات سے لیکر اسٹیٹ بینک بل کی منظوری تک سب پر عیاں ہے کہ کس طرح سے حکومت کو کامیابی ملی اور یہاں تک کہ مایوسی کے شکار یوسف رضا گیلانی نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا جس کے بعد پارٹی قیادت کے فیصلے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گئے ۔اپوزیشن اندرون خانہ مضبوط ہونے کا دعویٰ تو کرتی ہے مگر عین وقت موقع پر اس اتحاد کا شیرازہ بکھرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے گوکہ حکومتی حلقوں میں اختلافات بھی موجود ہیں مگر اب تک پی ٹی آئی حکومت کو بہت بڑا دھچکا اپوزیشن کی بڑی اتحادی جماعت پی ڈی ایم نہیں دے سکی ہے۔
گزشتہ ر وز اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں منعقدہواجس میں اہم قائدین نے بھی شرکت کی۔سربراہی اجلاس میں لانگ مارچ اور عدم اعتماد سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے اور حکومت کی حلیف جماعتوں سے بھی رابطہ کریں گے۔ان کا کہنا تھاکہ پہلے گراؤنڈ بنائیں گے اور ہوم ورک مکمل کریں گے پھرتحریک عدم اعتماد لائیں گے اور وفاق سے لے کرصوبوں تک جہاں ہوسکا عدم اعتماد لائیں گے۔سربراہ اتحاد کا کہنا تھاکہ کہہ چکاہوں کہ میں ہدف ایک ہی رکھوں گا، حالات کا انتظار بھی کرنا پڑتا ہے اور گراؤنڈ تیار کرنے کیلئے مراحل ابھی باقی ہیں، ہم اپنی طرف سے بھرپور کوشش اور جتن کریں گے۔انہوں نے کہا کہ کسی ایک سے ہم رابطہ نہیں کریں گے، ہم کسی کو لالچ نہیں دیں گے اور نہ پیسے دیں گے۔دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی ہے ۔
یہ پہلی بار نہیں کہ پیپلزپارٹی یہ بات کہہ رہی ہے اس سے قبل بھی بلاول بھٹوزرداری یہ دہراچکے ہیں مگر اس پر نہ ہوم ورک ہوا نہ ہی بڑے پیمانے پر رابطہ مہم چلائی گئی ، یہ دعوؤں تک ہی محدود رہی ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے پر برتری کے دعوے بھی کررہے ہیں ،اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومتی حلقوں کے بعض اراکین ان کے ساتھ بیک ڈور رابطے میں ہیں جب عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی نام سامنے آئینگے تو دوسری جانب حکومتی حلقوں کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کی اہم شخصیات ہم سے رابطے میں ہیں اور وہ حکومت کے خلاف کسی مہم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مگر یہ انتہائی اہم ثابت ہوگا جو ملکی سیاسی منظر نامہ کو واضح کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں برتری کی نشاندہی بھی کرے گا کہ اگلے انتخابات میں کون معرکہ مارے گا۔ بہرحال آئندہ چند روز میں سیاسی سرگرمیاںمزید تیز ہونگی جس میں رابطوں کے حوالے سے انکشافات سامنے آئینگے۔