پاکستان میں اس سب سے بڑا چیلنج معاشی اورسفارتی حوالے سے دنیا کے ممالک سے قرابت کا ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں ملکی معیشت کو فروغ دینے کے لیے عالمی منڈی تک رسائی حاصل کی جائے جبکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف مائل کرنا ہوگا جس کے لیے ضروری ہے کہ انہی ممالک کے سربراہان اور سفیروں سے ملاقاتوں اور رابطوں کو تیز کیا جائے جس طرح سے چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے بہترین تعلقات چل رہے ہیں اسی طرح دیگر ممالک کوبھی اپنے قریب لانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ جب تک پاکستان کے پروڈکٹس عالمی منڈی تک نہیں پہنچتے اور بیرونی سرمایہ کاری نہیں آتی تو ملکی معیشت اوپر نہیں جائے گی۔
بہرحال گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں اورسابق سفیروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو خوش کرنے کے بجائے اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کا نقشہ تیزی سے بدلتا جا رہا ہے اور ملاقات کا مقصد آپ کی آراء لینا ہے۔ چین کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا اور دورہ چین سے متعلق بھی آپ کی رائے سننا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان پر چین اور پاکستان میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن صرف امریکہ کی رائے مختلف ہے اور امریکہ اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے پھنسا ہوا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔چین سے تعلقات پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے چین سے تعلقات موجودہ دور کے بعد زیادہ مضبوط ہوئے۔ 2019 میں کورونا کے باعث چین میں لاک ڈاؤن کیا گیا اور چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوا جس کی وجہ سے کچھ چیزیں طے ہونے سے رہ گئیں۔
اب 2 سال بعد چین کے صدر سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں اور وفاق میں تقسیم ہو گئے اور 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے مسائل سامنے آئے۔ اب درپیش مسائل کے حل کے لیے مسلسل اجلاس کر رہے ہیں۔ برآمدات دولت کمانے کا اہم طریقہ ہے۔عمران خان نے کہا کہ چین میں اوپر سے کوئی سگنل آتا ہے تو فوری اس کے اثرات آتے ہیں اور کورونا پابندیوں پر وہاں پر بہت زیادہ سختی تھی۔ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی جڑیں مضبوط ہیں جبکہ اسٹریٹجک پالیسی پر میں اور میری ٹیم کلیئر ہے۔عمران خان نے کہا کہ سی پیک کے تحت کئی ٹرانسمیشن لائنیں بنائی گئیں۔ ہر ملک نے اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے بڑی محنت کی ہے اور چین نے کورونا پر بہترین انداز میں قابو پایا۔وزیر اعظم نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں گندم کی الگ الگ قیمتیں ہیں جبکہ ملک میں اشیاء کی قیمتیں یکساں ہونی چاہئیں۔ وزیراعظم عمران خان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں وزیراعظم عمران خان نے اس سے قبل بھی مختلف ممالک کے دورے کئے اور اس بات پر زور دیا کہ خطے میں خوشحالی کے لیے پوری دنیا کو اس جانب توجہ دینی چاہئے تاکہ دہائیوں سے پسماندگی اور جنگی حالات سے گزرنے والے ممالک ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہوسکیں مگر امریکہ کی جانب سے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔
بھارت کے معاملے پر بھی امریکہ نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے وعدے کئے مگر انہیں بھی پورا نہیں کیا ۔ بہرحال حکومت کو اپنی بساط کے مطابق دنیا بھر میں اپنی سفارتکاری تیز کرنی ہوگی اور اس پر بہترانداز میں ہوم ورک کرتے ہوئے اہداف رکھے جائیں تاکہ انہیںپورا کیاجاسکے اوراس کی باقاعدہ مانیٹرنگ وزیراعظم عمران خان خود کریں ،ساتھ ہی ہر ہفتے پیش رفت کاجائزہ لیاجائے امید ہے کہ بہتری آئے گی کیونکہ پہلے بھی یہ تذکرہ کیا جاچکا ہے کہ صرف چند ایک دو ممالک کے ساتھ تجارت وسفارت سے معاملات بہتر نہیں ہوسکتے ،اس لیے پڑوسیوں سمیت ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مضبوط تجارتی وسفارتی تعلقات ضروری ہیں اس سے ترقی اور خوشحالی کے نئے دروازے کھلیںگے اور جس طرح سے قرض پر قرض لیے جارہے ہیں
ملک پر معاشی بوجھ بڑھتا جارہا ہے ، اس حوالے سے شوکت ترین نے بھی اپنا مؤقف سامنے رکھ دیا ہے کہ باربار اداروں کے پاس جانا نیک شگون نہیں، یقینا ان کا اشارہ معاشی ابتری کی طرف ہے اور عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی وجہ بھی یہی ہے لہٰذا پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ دیگر ممالک کی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راضی کرناضروری ہے تب جاکر معاشی بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔