|

وقتِ اشاعت :   February 20 – 2022

ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافے کے بعد اب بجلی کی قیمت میں بڑے اضافے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی درخواست نیپرا کو بھیج دی ہے۔نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو سی پی پی اے کی جانب سے دی گئی درخواست میں بجلی فی یونٹ 6 روپے 10 پیسے مہنگی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔نیپرا کاکہنا ہے کہ درخواست جنوری کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کی گئی ہے جس پر سماعت 28فروری کو ہوگی۔سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی درخواست کے الیکٹرک کے سوا تمام بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے ہے۔واضح رہے کہ حال ہی میں پیٹرول کی قیمت میں 12 روپے 3 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔

جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 159 روپے 86 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے جبکہ ڈیزل کی قیمت 9 روپے 53 پیسے فی لیٹر اضافے کے بعد 154 روپے 15 پیسے فی لیٹر تک جاپہنچی ہے۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی کا موجودہ مہنگائی پر کہنا ہے کہ عمران خان نے اقتدار میں آکر کوئی اثاثے نہیں بنائے البتہ نیچے سے آنے والوں میں اقتدار کی بھوک ہوتی ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ کرپشن کرنے والوں کیخلاف آواز اٹھائی۔ دنیا میں مہنگائی کی وجہ سے عوام پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔بہرحال یہ منطق حکومتی نمائندگان کی جانب سے پہلی بار سامنے نہیں آیا ہے بلکہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران یہ بات کہی جارہی ہے کہ پچھلی حکومتوں کے قرض لینے کی وجہ سے معاشی مسائل پیدا ہوئے ہیں، عالمی مارکیٹ میں خام تیل مہنگا ہونے کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھارہے ہیں، دنیا بھر میں مہنگائی بہت زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں کم ہے۔ البتہ صورتحال دیگر ممالک کی بہ نسبت ہمارے ہاں کچھ اور ہے،آمدن، روزگار، تجارت یہ تمام مسائل ہمارے یہاں موجود ہیں جن کا اظہار کھل کرکرنا چاہئے کہ ہماری معیشت زبوں حالی کاشکار ہے گوکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ مسائل موجود ہیں اور یہ ایک دن میں حل نہیں ہوسکتے۔

مگر مستقل بنیادوں پر پالیسی مرتب کی جائے تو ان چیلنجز سے نکلا جاسکتا ہے افسوس کہ اس جانب کسی طور توجہ نہیں دی گئی حالانکہ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے بہت زیادہ فائدہ تجارتی حوالے سے اٹھا سکتا ہے ہمارے پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دیکر ہم بہت سے مسائل سے نکل سکتے ہیں گیس اور بجلی کے حوالے سے ایران پہلے سے ہی پیشکش کرچکا ہے مگر ہمارے یہاں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی دی گئی جس کی بڑی وجہ ایک عالمی دباؤ ہے جس کو ہمارے حکمران برداشت نہیں کرپاتے، ایسا کوئی بھی نہیں جس نے ملکی معیشت پر دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے واضح جواب دیا ہو کہ عالمی منڈی تک ہماری رسائی اور سرمایہ کاری نہیں کی جاتی تو ہم اپنے معاشی فیصلوں پر آزاد ہوکر پالیسی مرتب کرینگے۔

افسوس کہ دہائیوں سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت دیگر اداروں اور ممالک سے قرض لیکر ہم اپنی معیشت کو چلارہے ہیں یقینا اس کا اثر تو پڑے گا اور معاشی فیصلے بھی انہی کی مرضی اور قرض کی ادائیگی کے طور پر کرنے پڑینگے اس سے ہماری معاشی آزادی قید ہوکر رہ جاتی ہے۔ اگر اس مسئلے سے نہیں نکلیں گے توکوئی بھی حکومت آجائے مہنگائی اوربحرانات اپنی جگہ برقرار رہینگے۔ یہاں صرف موجودہ حکومت کو موردالزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا بلکہ ماضی میں بھی خارجہ پالیسی اور ڈپلومیسی کمزور رہی ہے جس کو بہتر کرنا انتہائی ضروری ہے تب جاکر بحرانات سے نکلا جا سکتا ہے۔