کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ضلع کوئٹہ کے زیر اہتمام مادری زبانوں کے عالمی دن کے مناسبت پر اور شہداء جیونی کے برسی کی سلسلے میں پروگرام برمہ ہوٹل میں بی این پی حاجی عبدالعزیز لہڑی سٹریٹ سریاب روڈ کوئٹہ میں منعقد ہوا پروگرام کی صدارت شہداء جیونی کے تصاویر کے کرائی گئی۔
جبکہ مہمان خاص بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی لیبر سیکرٹری موسیٰ بلوچ ،اعزازی مہمانان سینٹرل ایگزیکٹو کے رکن وضلعی صدر غلام نبی مری اور چیئرمین جاوید بلوچ تھے پروگرام کی آغاز تلاوت کلام پاک سے کی گئی جس کی سعادت پارٹی کے رہنماء حاجی عالم مینگل نے حاصل کی جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ضلعی ہیومن رائٹس سیکرٹری پرنس رزاق بلوچ نے سرانجام دی شہداء جیونی دنیا کے محکوم ومظلوم قوموں کے حقوق کی تحریکوں کیلئے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کرنے والے فرزندوں کے عظیم قربانیوں کے احترام میں ایک منٹ کھڑے ہوکر خاموشی اختیار کی گئی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے مرکزی لیبر سیکرٹری موسیٰ بلوچ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین وضلعی صدر غلام نبی مری چیئرمین جاوید بلوچ ،بی ایس او کے ضلعی آرگنائزر نذیر بلوچ ، ملک محی الدین لہڑی، ڈاکٹر علی احمد قمبرانی، نسیم جاوید ہزار، اسرار بلوچ، نصیب اللہ قمبرانی، میر سراج لہڑی نے خطاب کرتے ہوئے مادری زبانوں کے اہمیت وافادیت ترویج و عظمت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تمام ماہر لسانیات اور مادری زبانوں پر پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسرز اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبانوں کے بغیر کوئی بھی قوم اور ملک ترقی وخوشحالی آراستہ ہوئے بغیر منازل طے نہیں کرسکے گے۔
آج وہ ممالک اور اقوام ترقی کے تیز ترین رفتاری کا مقابلہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ جنہوں نے مادری زبانوں کو اہمیت اور انہیں سرکاری زبانوں کا درجہ دے کر آگے بڑھ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچی ،براہوئی، کھیترانی، دہواری، بلوچوں کے وہ بڑے قومی زبانیں ہیں جو اس ملک کے اکثریتی علاقوں میں بولی جاتی ہے جوکہ ہزاروں سالوں پر محیط ایک تہذیب اور تمدن کے وابستہ ایک تاریخ رکھتے ہیں لیکن ان مادری زبانوں کو سرکاری سطح پر وہ ترقی اور نمایاں مقام نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں یہ قومی زبانیں آج زبوحالی کے شکار ہیں پاکستان کے چاروں صوبوں میں بلوچی وہ زبان ہے جو کثیر تعداد میں بولی جاتی ہے مقررین نے کہا کہ حکومت وقت کے ذمہ داریوں اور فرائض میں یہ شامل ہے کہ پاکستان ایک کثرالقومی ریاست ہے یہاں ہزاروں سالوں پر محیط قومیں اپنے تاریخی تہذیب وتمدن، شناخت،وجود بقاء ،اور ثقافت ادب اور کلچر کے حوالے سے وجود رکھتے ہیں لیکن کبھی بھی محکوم قوموں کے مادری زبانوں کو یکساں، مساوی، برابری کے بنیادوں پر اہمیت نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ یہاں کے ہزاروں سالوں کی قدیم ترین قوموں سے تعلق رکھنے والے زبانوں کی تشخص ،بقاء اور سلامتی کو شدید خطراہ لاحق ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی بھی زبان کے حوالے سے کوئی نفرت، تعصب، تنگ نظری۔
لاتعلقی نہیں ہے کیونکہ بی این پی ایک ترقی پسند اور روشن خیال بلوچوں کے سب سے بڑی نمائندہ قومی جماعت کی حیثیت سے راشون سردار عطاء اللہ خان مینگل مرحوم کے فکر وفلسفے پر گامزن اور قائد تحریک سردار اختر جان مینگل کی مدبرانہ قیادت میں تمام زبانوں کو یکساں ،تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترویج دینے کی مطالبے کیلئے جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں لیکن بلوچی ،براہوئی، کھیترانی، اور دہواری زبانوں کے ساتھ امتیازی سلو ک کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ملک کے کسی بھی حصے میں سرکاری سرپرستی میں ان زبانوں کے حوالے کوئی نشریاتی ادارہ موجود ہیں ہے جو بلوچی ٹی وی چینلز، جرائد واخبارات ہیں وہ سرکاری انتقامی کارروائیوں ،اشتہارات کی بندش اور دیگر ناانصافیوں کے پاداش میں نظرانداز ہورہی ہیںپاکستان کے خوشحالی ،ترقی کیلئے ضروری ہے کہ تمام قوموں کے زبانوں کو سرکاری اور قومی زبانوں کا درجہ دے کے فنڈز فراہم کیے جائیں اور زبانوں کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور دیگر ادارے قیام عمل میں لائے جائے اور نصاب میں بلوچ ،پشتون، سندھی، سرائیکی، پنجابی ،سمیت ان کے ان قومی رہنمائوں کو نمایاں حیثیت دیا جائے کہ جنہوں نے اپنے قومی شناخت وجود سلامتی کیلئے طویل ترین قربانیوں اورجدوجہد کا سامنا کرتے ہوئے ایک لازوال جدجہد اور قربانیاں کا داستان رقم کررکھی ہے۔
اور وہ قوموں کے تاریخ تہذیب وتمدن میں انمول حیثیت رکھتے ہیںان قومی رہنمائوں کو نصاب میں جگہ نہ دینے کا مقصد محکوم قوموں کے اکابرین کے جدوجہد اور قربانیوں سے انکاری کی پالیسیوں نے آج ملک میں سیاسی احساس محرومی، قومی محکومیت ،استحصالی کو جنم دیا ہے مقررین نے شہداء جیونی کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے کئی دہائیوں پہلے گوادر کے علاقے جیونی میں پینے کے صاف پانی کے حصول کیلئے ایک پرامن ریلی کا اہتمام کیا تھا جس پر انتظامیہ نے دھاوا بول کر معصوم بچی، یاسمین کو قتل وغارت گیری کا نشانہ بنایا یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کئی دہائیوں سے لیکر آج بھی گوادر بحر بلوچ کے علاقے کے عوام پینے کے صاف پانی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے حکمرانوں کو ہمارے وسائل سے دلچسپی ہے انہیں یہاں کے لوگوں کی زندگی ترقی وخوشحالی سے کو ئی دلچسپی نہیں ہے ۔