ملک میں سیاسی ہلچل میں مزید شدت آگئی ہے ایک طرف پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ جاری ہے تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اہم بیٹھک اور حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کررہے ہیں یہ اہم بیٹھک عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کے لیے ہورہے ہیں جس کا کھل کر اظہار اپوزیشن لیڈر کررہے ہیں ۔اس وقت پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی دونوں ہی زیادہ متحرک ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی سمیت ان کے اتحادی ارکان کی حمایت حاصل کی جائے۔ بہرحال لمبی خاموشی کے بعد وزیراعظم عمران خان اب خود میدان میں اتر آئے ہیں نہ صرف اپنی جماعت بلکہ اتحادیوں کے ساتھ بھی ملاقات شروع کردی ہے جبکہ اپنے دیرینہ دوست جہانگیر ترین کے ساتھ بھی فون پر رابطہ کرچکے ہیں ۔
اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کی موجودہ سیاسی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لیا ہے اور کسی نہ کسی طرح سے اپوزیشن کی آنے والی تحریک کو ناکام بنانا چاہتی ہے ۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وفاقی وزرا ء کے ساتھ چودھری برادران سے ملاقات کی۔وزیراعظم عمران خان نے چودھری برادران سے ملاقات کے دوران کہا کہ آپ مجھ سے اور میں آپ سے جدا نہیں ہوں، چھوٹی موٹی چیزیں چلتی رہتی ہیں، میں اور میرے ساتھی بالکل نہیں گھبرا رہے۔اطلاعات کے مطابق ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے چودھری شجاعت سے پوچھا کہ چودھری شجاعت صاحب آپ کی صحت میں دن بدن بہتری آ رہی ہے، آپ منجھے ہوئے اور زیرک سیاست دان ہیں، کئی لوگ صحت پوچھنے کے بہانے آپ کے پاس آ رہے ہیں۔ وزیراعظم کی بات پر چودھری شجاعت نے عمران خان سے مکالمہ کیا کہ کون سے لوگ آرہے ہیں؟
آپ کن کی بات کررہے ہیں؟ اس پر وزیراعظم نے کہا کہ آپ سمجھ رہے ہیں میں کن کی بات کر رہا ہوں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں شہبازشریف کی بات کررہا ہوں جن کو آپ کی یاد 14 سال بعد آئی۔ وزیراعظم کی بات پر چودھری برادران اور وفاقی وزراء نے قہقہہ لگایا جب کہ پرویز الٰہی نے کہا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔(ق) لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے تحریک عدم اعتماد پر چودھری برادران سے کوئی بات نہیں کی جبکہ اس بات کا ذکر چودھری برادران نے بھی نہیں کیا۔بہرحال ملک میں سیاسی درجہ حرارت آگے چل کر مزید بڑھ جائے گی کیونکہ پیپلزپارٹی کا آخری پڑاؤ اسلام آباد میں پڑے گا جبکہ پی ڈی ایم بھی لانگ مارچ کرنے جارہی ہے ،دونوں سرگرمیاں اپوزیشن کی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں ،ایک طرف مارچ تو دوسری طرف ملاقات اور خفیہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ پی ٹی آئی بھی ملاقاتوں سمیت اس وقت سندھ حقوق مارچ پر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی سرگرمیوں سے کون اپنے اہداف حاصل کرپائے گا یہ آئندہ چند روز میں واضح ہوجائے گا کہ حالات کس کے حق میں جارہے ہیں، تبدیلی میں کس کی جیت ہوگی اور کون سیاسی بازی لے جائے گا۔ اس وقت سب کی نظریں ملکی سیاسی تبدیلی پرلگی ہوئی ہیں ۔