|

وقتِ اشاعت :   March 3 – 2022

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اقتدار میں آکر اندازہ ہوا کہ حکومت کئی چیزیں ٹھیک نہیں کرسکتی، اخلاقی تربیت کا آغاز بنیادی سطح سے کرنا ہوگا۔

اسلام آباد میں رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کی فعالیت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ برطانیہ کا معاشرہ اسی لیے ہم سے آگے ہے کہ وہاں برائی کو دبایا جاتا ہے اور اچھائی کو فروغ دیا جاتا ہے، ان کی اخلاقیات ہم سے بہت آگے ہیں، وہاں عوام کا پیسہ چوری کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، وہاں کوئی مقصود چپڑاسی نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں نیب جانے والوں پر پھول پھینکے جاتے ہیں، ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر جانے والے کے لیے ٹی وی پر تقریر کے حق میں کچھ صحافیوں کی جانب سے آوزایں اٹھائی جاتی ہیں، کچھ وکلا کہتے ہیں کہ اس پر سے پابندی ختم کردو تاکہ وہ پھر الیکشن لڑ سکے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج بڑا خوش ہوں کہ 3 مہینوں بعد اس اتھارٹی کے قیام کا تصور واضح ہوا ہے، اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر انیس کا خاص طور پر شکر گزار ہوں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے رحمت اللعالمین ﷺ اتھارٹی کا مکمل روڈ میپ پیش کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس اتھارٹی کے قیام کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ ہماری نوجوان نسل اور بچوں کو سمجھ ہی نہیں ہے کہ یہ ملک کیوں بنا تھا، ہمارے نبی ﷺ کا پیغام کیا تھا، اور ان کی پیروی کا حکم قرآن میں کیوں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سیاست میں آنے سے بھی پہلے مجھے اس بات کا احساس تھا کہ ہمیں اسکول میں یہ چیزیں نہیں پڑھائی جاتیں، مجھے کبھی بھی اسکول میں دینیات اور اسلامیات کی کلاس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میں کیوں رسول ﷺ کے راستے پر چلوں، ہمیں رسولﷺ سے محبت اور ریاست مدینہ کا تصور نہیں سمجھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب میں اسکول میں تھا تو ہمیں نئی نئی آزادی ملی تھی، تب ہمیں اسکول میں پڑھایا جاتا تھا کہ برطانیہ اور مغربی جمہوریت کے راستے پر چلو تو کامیابی ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں کوئی اسلامک اسکالر نہیں ہوں، میں اپنی زندگی کے تجربے سے دین کی طرف آیا ہوں ، کیونکہ میں نے دونوں طرح کے کلچر دیکھے، میں نے مغربی معاشرے کو قریب سے دیکھ کر تجزیہ کیا، مجھ میں اصل تبدیلی نبیﷺ کی سیرت پڑھنے کے بعد آیا۔

انہوں نے کہا کہ مدینے کی ریاست کے 2 اصول تھے، عدل و انصاف اور فلاحی ریاست، وہاں لوگوں کی شخصی تربیت کی گئی اور پھر ان ہی لوگوں نے دنیا کی امامت کی۔

عمران خان نے کہا کہ ملک صرف کرپشن کی وجہ سے غریب ہوتے ہیں،ساری دنیا کے غریب ممالک کا جائزہ لے لیں وہاں آپ کو کرپشن نظر آئے گی، سوئٹزرلینڈ جیسا ملک بغیر وسائل کے امیر ترین ملک اسی لیے ہے کیونکہ وہاں کرپشن نہیں ہے، نیوزی لینڈ میں کسی پر کرپشن کا ذرا سا دھبہ لگ جائے تو وہ عوام کا سامنا نہیں کرپاتا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں برائی اور کرپشن کو عام بنادیا گیا ہے، اچھے برے کی تمیز ختم کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 3 سال پہلے جب میں نے حکومت سنبھالی تو آئی جیز کو بلا کر کرائم چارٹ دیکھا، مجھے اسلام آباد اور پنجاب کے آئی جیز نے بتایا کہ جنسی جرائم کی شرح سب سے اوپر جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قصور واقعہ ہوا تو میں نے باقاعدہ ایک آئی جی کو چُن کر وہاں بھیجا، انہوں نے واپس آکر مجھے رپورٹ دی کہ جب تک اساتذہ اور علما کو ساتھ ملا کر اس کے خلاف آگہی مہم نہ چلائی جائے تب تک جنسی جرائم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کئی لوگ جنسی جرائم رپورٹ ہی نہیں کرتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ریپ اور چائلڈ پورنوگرافی کے کیسز سب سے زیادہ ہیں، لوگ شرم کے مارے ایف آئی آر درج نہیں کرواتے اس لیے ایک فیصد جنسی جرائم بھی رپورٹ نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے سوچا کہ معاشرے کو خود اس برائی کا مقابلہ کرنا ہوگا، لیکن معاشرہ تب مقابلہ کرے گا جب لوگوں میں بنیادی اخلاقیات سے آگہی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو بتانا ہوگا کہ اسلام میں پردے کا حکم کیوں دیا گیا ہے، پردے سے مراد صرف لباس نہیں بلکہ آنکھوں کا بھی پردہ ہے، برطانیہ میں طلاق کی شرح اسی لیے بڑھ گئی کیونکہ وہاں اخلاقی قدریں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں اور فحاشی بڑھتی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پردے کا تصور خاندانی نظام کو تحفظ دینا ہے، ہم صرف پردے کرنے کا حکم بتاتے ہیں لیکن اس کے پیچھے چھپی حکمت نہیں بتاتے، اس کے پیچھے ایک بڑا فلسفہ ہے، جیسے جیسے فحاشی بڑھے گی سب سے پہلے خاندانی نطام متاثر ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ آج کل بچے جو کارٹونز اور پروگرام دیکھ رہے ہیں اس میں ماں باپ اور استاد کی عزت نہیں دکھائی جاتی، ہمارے دین میں ماں باپ کی عزت کے پیچھے بھی بڑا فلسفہ ہے، سب سے بے لوث محبت ماں باپ کی اپنی اولاد سے ہوتی ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد ان کی غلطیاں دہرائے۔

انہوں نے کہا کہ الحمداللہ ہمارا خاندانی نظام اب بھی مغرب سے بہتر ہے، اسی لیے ہم نے یہ اتھارٹی بنائی ہے کہ لوگوں کو اور نوجوان نسل کو بتائیں کہ ان احکامات کے پیچھے فلسفہ کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد علمااور اسکالرز کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے، یہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ سب کی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیڈر شپ شخصی تربیت کا اہم جُز ہے، برے لیڈر کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کے درمیان تفریق کرتا ہے، ہم انسانوں کے درمیان تفریق کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ نبی ﷺ تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے، میثاق مدینہ کے ذریعے انہوں نے سب کو ساتھ ملایا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے صحت کارڈ، احساس پروگرام اور پناہ گاہوں جیسے غیرم عمولی پروگرامز متعارف کروائے جن کے لیے کبھی کسی حکومت نے اتنا زیادہ پیسہ خرچ نہیں کیا۔