عمران خان نے کہا تھا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کے روز ہی اپوزیشن کو ایسا سرپرائز دینگے جس سے وہ حیران رہ جائینگے.ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے روز وفاقی وزیر فواد چوہدری کی جانب سے اپوزیشن ارکان پربیرونی سازش میں ملوث ہونے کو عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ جوڑ دیا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر بجا فرمارہے ہیں کہ ایک بیرونی سازش کے تحت حکومت کو فارغ کیاجارہا ہے۔ جس کے بعد انہوں نے اسمبلی اجلاس کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔ وزیراعظم عمران خان کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا کابینہ تحلیل ہوگئی اور صدر کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے آنے تک کام جاری رکھنے کو کہا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی اس حوالے سے نوٹس لے لیا ہے اور کیس کی سماعت جاری ہے۔ بہرحال اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں اپوزیشن کی جانب سے یہ کہاگیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی ہمیں قبول ہوگا۔دوسری جانب عمران خان نے نگراں وزیراعظم کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو نام بھجوائے ہیں جس پر شہباز شریف نے مکمل انکار کردیا ہے یقینا وہ کیسے اس عمل کو تسلیم کرینگے جبکہ اپوزیشن نے پورے عدم اعتماد کی تحریک کے عمل کے دوران حکومتی رویہ پر سخت احتجاج کیا اور اسے غیر قانونی اور غیر آئینی عمل قرار دیا ہے۔
بہرحال اب اس پر بہت زیادہ بحث ہورہی ہے مگر یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اب جس جماعت کی بھی حکومت بنے گی وہ اپنا اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی میں لاکر اسمبلی کو اپنی مرضی سے چلائے اور خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنائے تاکہ ان کی حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اور آئین اورقانون کو اپنے تحفظ کے حوالے سے استعمال کرنے کے ساتھ اختیارات کو بھی محدود رکھے۔یقینا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اس وقت ملک میں ایک بہت بڑا سیاسی بحران پیدا ہوچکا ہے مگر جو عمل آج کیاجارہا ہے یہ آگے چل کر روایت بن جائے گی تو پھر پارلیمان کی کیا وقعت رہ جائے گی پھر تو ہر جماعت کسی پر بھی سازش کا الزام اور غدار جیسے القابات سے نوازتے ہوئے انہیں سائیڈ لائن کرکے اپنے احکامات ہی صادر فرمائے گا جس سے اسمبلی میں منتخب نمائندگان کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ جائے گی۔
پہلے سے ہی ملک میں بہت سارے بحرانات پیدا ہوچکے ہیں اب تو آئینی بحران پیدا ہوچکا ہے ملک میں کوئی نظام اب کام نہیں کررہا جس کے نتائج تو یقینا نکلیں گے مگر یہاں کسی کی جیت اور شکست کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس جمہوریت کی ہے جس کی بڑی بڑی مثالیں دی جاتی ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں جمہوری نظام کس قدر مضبوط ہے اور ادارے آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے ہیں، انصاف ہر کسی کو ملتا ہے داخلی اور خارجی معاملات کو پارلیمان کے ذریعے ہی حل کئے جاتے ہیں جبکہ اپنے عوام کے وسیع تر مفاد میں اسمبلی کے اندر ہی قانون سازی کی جاتی ہے۔ اب یہ جوکچھ ہورہا ہے کیا وہ جمہوریت کے منافی نہیں، اگر یہ غدارکہنے اوربیرونی آلہ کار والاسلسلہ چلنے لگا تو پھر کوئی بھی محب وطن نہیں رہے گا جس طرح کے الزامات سامنے آئے ہیں یہ انتہائی خطرناک ہیں۔ سیاست کو اپنی جگہ پر رکھی جائے مگر حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کے عمل سے گریز کیاجائے کیونکہ پھر یہ ایک روایت بن جائے گی،اپنے حریف اور مخالفین کو دبانے کے لیے یہ حربہ استعمال کیاجائے گا۔اگر ایسی کوئی سازش ہوئی ہے تو اب سپریم کورٹ اس کو دیکھے گی اور یقینا خط کا معاملہ بھی سامنے آئے گا جس کی وجہ سے یہ تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ایک اہم موڑ پر اب معاملات آئے ہیں،سب کی نظریں اعلیٰ عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں کہ اصل حقائق ہیں کیا اور فیصلہ کے بعد کس طرح کا سیاسی ماحول بنے گا؟یہ چند روز میں ہی واضح ہوجائے گا۔