|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2022

سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ہونے والے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی نے ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا تھا جو نصف گھنٹے بعد بھی شروع نہیں ہوسکا۔

یہ اہم اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہو رہا ہے جس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول پیش کی گئی اور قومی ترانہ بجایا گیا۔

ایوان کی کارروائی شروع ہونے سے قبل ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کی وفات پانے والی والدہ کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ووٹنگ کرائی جائے، شہباز شریف

ایوان کی باقاعدہ کارروائی شروع ہونے کے بعد سب سے پہلے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تقریر کی۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ پرسوں پاکستان کی تاریخ کا تابناک دن تھا جب عدالت عظمیٰ نے آپ کے، وزیراعظم عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دیا اور نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے پاکستان کا مستقبل تابناک بنا دیا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس کے لیے متحدہ اپوزیشن کی پوری قیادت اور قوم کو سلام پیش کرتا ہوں کہ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ آج آپ سپریم کورٹ کے حکم کے تابع ایوان کی کارروائی چلائیں کیوں کہ آج یہ ایوان ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہا ہے اور آئینی اور قانونی طریقے سے ایک سیلیکٹڈ وزیراعظم کو شکست فاش دینے جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو ماضی میں ہوگیا ہوگیا، آج آپ آئین و قانون اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے لیے کھڑے ہوجائیں اور صحیح معنوں میں اسپیکر کا کردار ادا کر کے تاریخ میں سنہرے حروف میں نام لکھوا لیں، اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں سیلیکٹڈ وزیراعظم کی ڈکٹیشن پر نہ چلیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بڑا واضح ہے۔

اس دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کا پورا فیصلہ پڑھا ہے اور میں من و عن اس کے مطابق اجلاس کی کارروائی کروں گا اور ہم چاہتے ہیں کہ اس میں بین الاقوامی سازش کے بارے میں بھی بات ہو۔

اس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اگر آپ پھر اس طرف آئیں گے تو آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کی حکم عدولی کر رہے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے سپریم کورٹ کا حکم نامہ پڑھا اور یاد دہانی کرائی کہ آپ اس کے مطابق ایجنڈا آئٹم پر کارروائی کرنے کے پابند ہیں کسی اور پر کارروائی نہیں کرسکتے، اس لیے مہربانی کر کے ووٹنگ کرائی جائے۔

آئینی سیاسی اور جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، شاہ محمود

ایوان میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں اپنی جماعت کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ آئین میں عدم اعتماد کی تحریک کا حق موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ اس تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے اور اس کا دفاع کرنا میرا فرض ہے، ہم آئینی سیاسی اور جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں آج ایک اور چیز ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں اور قوم کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ آئین شکنی مطمع نظر تھا نہ ہوگا، آئین کا احترام ہم سب پر لازم ہے اور وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ وہ دل سے مایوس ہیں لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر سر تسلیم خرم کرتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری ہوئی ہے، میں حالیہ آئین شکنی کا حوالہ دینا چاہوں گا، قوم اس بات کی گواہ ہے کہ 12 اکتوبر 1999 میں آئین شکنی ہوئی، قوم اس بات کی گواہ ہے جب اعلیٰ عدلیہ کے سامنے جب وہ کیس گیا تو نہ صرف جسٹیفکیشن مانگی گئی بلکہ آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو زرداری صاحب نے عدلیہ کے فیصلے سے قبل بیان دیا کہ کوئی نظریہ ضرورت کا فیصلہ ہم قبول نہیں کریں گے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں، میرا وزیر اعظم کہتا ہے کہ مایوس ہوں لیکن عدلیہ کا احترام کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ اجلاس جاری رہے گا اور تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اتوار کو ہونے والے اجلاس اور وزیر اعظم عمران خان کے اسمبلی توڑنے کی تجویز کا عدالت نے ازخود نوٹس لیا اور اسپیکر کی رولنگ کو مسترد کردیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ ہماری اپوزیشن پونے 4 سال سے کر رہی ہے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے، جس کے پیش نظر وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ عوام کے پاس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ عوام پاکستان مستقبل کن ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے لیکن اپوزیشن عدلیہ میں کیوں گئی، اس کا ایک پس منظر ہے، یہاں جب ڈپٹی اسپیکر اجلاس کر رہے تھے اس میں آئینی کارروائی سے انکار نہیں کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ایک نئی صورتحال میرے سامنے آئی ہے جہاں ایک بیرونی سازش ہورہی ہے اور اس کی تحقیقات ہونا ضروری ہے، قومی سلامتی کمیٹی کا فورم ایک اعلیٰ ترین فورم ہے، اس میں مراسلے کی بازگشت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب قومی سلامتی کمیٹی نے اس مراسلے کو دیکھا تو اس حل پر پہنچی کہ یہ سنگین اور حساس مسئلہ ہے اور احکامات جاری کیے۔

انہوں نے کہا کہ پہلا یہ کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سلامتی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو حکم دیا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن میں ڈیمارش کرو اور دفتر خارجہ یہی کرتا ہے، قومی سلامتی کمیٹی نے دوسرا فیصلہ یہ دیا کہ یہ فیصلہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ بات کی باریکی تک جائیں۔

شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اپوزیشن بینچز سے آوازیں آنے لگیں اور شور شرابہ ہوا جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔

متحدہ اپوزیشن کا پارلیمانی اجلاس

اجلاس سے قبل ٹیلی ویژن فوٹیج میں دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات دکھائی دیے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے پارلیمانی گروپ کا اجلاس بھی ہوا جس کی صدارت مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کی۔