میڈیاریاست کا چوتھا ستون ہے اس کی غیر جانبداری اور آزادی سے فائدہ ملک کا ہی ہوگا مگر بدقسمتی سے جب بھی سچ اور حقائق کو میڈیا نے اجاگر کیا تو انہیں مختلف حربوں کے ذریعے زیرعتاب لانے کی مذموم کوشش کی گئی جس میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی آج تک میڈیا اپنی آزادی کی جنگ لڑرہا ہے اوریہی مطالبہ کیاجارہا ہے کہ میڈیا کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے۔
کیونکہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہے عوامی مسائل کو اجاگرکرتی ہے کرپشن کو بے نقاب کرتی ہے بیڈگورننس کے ذریعے آگاہی دیتی ہے اس سے خود حکومتوں کو اپنی کارکردگی کا علم ہوجائے گا کہ ان کی حکومتی پالیسی سمت کس طرف جارہی ہے قدغن لگانے مسائل حل نہیں مزید پیچیدہ اور خراب ہوجاتے ہیں بہرحال موجودہ نئی حکومت نے میڈیا کی آزادی کے حوالے سے اچھی خبردی ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سابقہ دور میں پی ایم ڈی اے کا کالا قانون لانے کی کوشش کی جا رہی تھی، ہم نے اسے ختم کر دیا ہے، پیمرا کے ہوتے ہوئے کسی میڈیا اتھارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ مل کر میڈیا سے متعلق مسائل حل کریں گے، فیک نیوز پر بھی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کریں گے، میڈیا سے متعلقہ اہم مسائل کو مل بیٹھ کر حل کریں گے۔وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پیکا 2016ء کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر نظرثانی کرنیکا فیصلہ کیا ہے، سابقہ دور میں پیکا قانون کا غلط استعمال کیاگیا، اس قانون میں جو بھی بہتری لائی جائے گی، اس پر ہم مل بیٹھ کر بات کریں گے۔ صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کسی کو اجازت نہیں، پچھلے چار سال میڈیا نے سینسر شپ اور اظہار رائے کی آزادی کی جہدوجہد کی، سینیئر صحافیوں پر فائرنگ کے واقعات ہوئے ایسے تمام صحافیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہوں، معاشرے کے اندر اظہار رائے کی آزادی رہے گی تو حکومت کو تقویت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ ہمارے پچھلے دور میں منظور ہوا تھا، اس پر کمیشن قائم کریں گے تاکہ وہ اپنا کام شروع کر سکے، تنقید دل سے قبول کریں گے، جس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے، اس وقت پاناما لیکس کے حوالے سے میڈیا پر باتیں ہوتی تھیں، پیمرا نے ایک بھی نوٹس جاری نہیں کیا تھا، دس سال شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب رہے، میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔یہ ایک اچھا اور بہترین فیصلہ ہے کہ میڈیا اور حکومت ساتھ چلکر چوتھے ستون کی آزادی کے لیے کام کرینگے مگر اس کے ساتھ ہی وفاقی وزیر اطلاعات سے یہ بھی امید کرتے ہیں کہ مقامی میڈیا کو وفاقی حکومت اپنی ترجیحات میں رکھتے ہوئے ان کے مسائل بھی حل کرے۔
بلوچستان میں میڈیا کی صنعت انتہائی مشکل حالات سے گزررہی ہے معاشی مسائل کا بہت زیادہ سامنا ہے بڑے پیمانے پر مقامی صحافیوں کے روزگار کا ذریعہ مقامی میڈیا ہے اگر بلوچستان کے اخبارات کو ترجیح بنیادوں پر اشتہارات اور واجبات کی ادائیگی کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں تو یقینا بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کے عوام کی آواز اٹھانے والی میڈیاآگے مزید اپنا کردار ادا کریگی توقع ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دے گی اور بلوچستان کے اخبارات، جرائد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا کلیدی کردار اداکرے گی تاکہ اس صنعت کو تباہی سے بچاتے ہوئے مزید ترقی کی جانب گامزن کیا جاسکے۔