|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2022

اسلام آباد:  مسلم لیگ کے مرکزی صدر وزیراعظم شہباز شریف سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے وزیراعظم ہاوس میں وفد کے ہمراہ ملاقات کی وفد میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل واجہ جہانزیب بلوچ ‘ مرکزی کمیٹی کے ممبر سابق سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ‘ ایم پی اے ثناء بلوچ نے ملاقات کی ملاقات میں سیاسی بالخصوص بلوچستان میں گزشتہ روز چاغی ‘ نوکنڈی کے دلخراش واقعات پر تفصیل سے بات چیت کی جس میں حمید بلوچ کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔

اس کے بعد پرامن مظاہرین پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا پارٹی نے اس بابت اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی علاقوں میں تواتر کے دلخراش واقعات رونما ہو رہے ہیں جو یقینا افسوسناک ہیںسیکورٹی فورسز غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے یہ امر قابل ستائش ہے کہ حالیہ واقعات کے حوالے سے جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹی بنائی گئی ہے۔

اور دالبندین میں شکایت سیل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے ہمیں توقع ہے کہ کمیٹی ذمہ داری کا مظاہرہ اور تحقیقات کرتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کرے گی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سامنے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی ‘لاپتہ افراد کی بازیابی‘ چادر و چاردیواری کے تقدس کو یقینی بنانا ‘ روزگار کی نوجوانوں کو فراہمی ‘ سرحدی اور بلوچستان میں تجارت کے فروغ جدوجہد اولین ترجیح ہے شہید حمید بلوچ کے بچوں کو روزگار اور تعلیم کی فراہمی کا اعلان بھی مثبت اقدام ہے جیونی ‘ پسنی ‘ گوادر ‘ اورماڑہ ‘ ڈام بندر میں ماہی گیروں کے روزگار کے تحفظ کو یقینی بنانے ‘ غیر قانونی ٹرالنگ روکنے سے متعلق بھی وزیراعظم شہباز شریف کو آگاہی دی گئی۔

وزیراعظم کی توجہ بلوچستان کے زمینداروں کے درپیش مسائل پر بھی مبذول کرائی گئی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا جائے تاکہ بلوچستان کے زمینداروں کے مسائل حل ہو سکیںوزیراعظم نے یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان کے مسائل کا حل اولین ترجیح ہے بجلی لوڈشیڈنگ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جلد بلوچستان کا دورہ کر کے بی این پی کی جانب سے دی گئی تجاویز کو مد نظر رکھ کر اہم اعلانات کروں گا تاکہ بلوچستان کی حقیقی ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہو اور دہائیوں پرانے مسائل کو حل کرنے کی راہ ہموار ہو سکے دریں اثناء ،کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بی این پی کو وفاقی کابینہ میں شمولیت کا کوئی جلدی نہیں ۔

چاغی ،نوکنڈی کے واقعات پر جوڈیشل انکوائری تک کابینہ کا حصہ نہیںبنیںگے ،بلوچستان کے معاملات عزیزامریکی صدارت کاآفر ہوں بھی تو سب سے پہلی ترجیح بلوچستان ہوگی ،بلوچستان میں موجودہ صوبائی حکومت میں بہتری کے چانسز کم ہے بے روزگار بھی ایکٹو اور برسرروزگار آنے کی کوشش کرنے والے بھی متحرک ہوگئے ہیں اپوزیشن پر منحصر ہورہاہے اگر چاہے تو تبدیلی آجائیں ،2018ء کے الیکشن میں لانے والے اب آزادی مانگ رہے ہیں یہ کس سے آزادی مانگ رہے ہیں برطانیہ سے یا بلوچستان یا سندھ سے بدقسمتی سے آزادی کے نعروں پر غدارکا ٹھپہ صرف قوموں پرستوں پر لگتاہے ،آج آزادی مانگنے والے پنجاب میں بہنے والے 5دریائوں میں ڈوبکی لگانے کے بعد صاف ہوجائیںگے ،موجودہ حکومت نے اتحادیوں کواعتماد میں لیا تو شاید وقت پورا کرے ورنہ بداعتمادی کی فضاء میں تو ایک خاندان بھی نہیں چل پاتا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روزنجی ٹی وی کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔

سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ دومعاہدات جو ایک 6نکات اور دوسرا 9نکات پرمشتمل تھا مدت کسی کو پتہ نہیں تھاآئینی طورپر5سال ہے بلوچستان کے مسائل وزارتوں سے حل نہیں ہوگی بلکہ ترجیحی بنیادوں پر اقدامات سے حل ہوگی ،ہم نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی تھی اس قرارداد میں یہ طے کیاگیاتھاکہ تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی سے ایک وفد تشکیل دیاجائے گاجس میں تمام اسٹیک ہولڈر سیاسی جماعتوں کے ارکان ہونگے وہ وفد بلوچستان جائے گی اور وہاں کے مجموعی حالات کاجائزہ لیکر اپنی رپورٹ مرتب کرینگی کیونکہ حکومت سنجیدہ نہیں تھی اس قرارداد کی روشنی میں تشکیل کردہ کمیٹی کی ایک مٹینگ بھی نہیں ہوئی ۔

پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپنی بساط کے مطابق کردارادا کیا جمہوری حق تھا جو ہم نے ادا کیا اس وقت ہم نے کوئی شرط نہیں رکھا تھا جس وقت تحریک کامیاب ہوگی ہم بلوچستان کے مجموعی مسائل اپوزیشن کے سامنے رکھیںگے جیسی تحریک کامیاب ہوئی ہم نے وزیراعظم اور کمیٹی کے سامنے اپنے مسائل رکھیں ہم نے یہ بھی کہاتھاکہ ہمیں توقع نہیں کہ تمام مسائل ایک دن یا ایک سال میں حل ہوجائیں کمیٹی میں سعد رفیق،سردارایازصادق اور رانا ثناء اللہ تھے ہم کہاکہ ہمیں جلدی نہیں ہے ہم تقریباََ وہی ایجنڈا رکھاجو پی ٹی آئی حکومت کے سامنے رکھا جس میں لاپتہ افراد،معاشی بدحالی ،بارڈر ٹریڈ،غیر قانونی ٹرالرنگ ،بے روزگاری شامل ہیں جس پر انہوں نے کہاکہ بی این پی کابینہ کا حصہ بن جائے ہم نے کہاکہ ہم مسائل نہیں بناناچاہتے ہماری ترجیحات بلوچستان کے مسائل رہے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے جس دن وزارت عظمیٰ کے انتخابات ہورہے تھے اس دن ایک واقعہ ہوجاتاہے نوکنڈی میں ایک ڈرائیور جہاں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہے بارڈر کی طرف جارہاتھا شایدروکنے کااشارہ کیا اور نہ رکا ہوگاآپ اس کے ٹائر پر گولیاں چلاتے لیکن ڈائریکٹ سرپر گولی چلائی گئی لوگوں نے احتجاج کیا سڑکوں پر نکلے ایف سی کے کیمپ پر انہی پر فائرنگ ہوئی وزیراعظم سے ایک دن پہلے ملاقات ہوئی تو انہوں زور دیا کہ بی این پی کی کابینہ میں نمائندگی ہونی چاہیے ہم نے کہاکہ ہماری خواہش نہیں لیکن اگرآپ چاہتے ہیں ہم شامل ہوجاتے ہیں ہم شرط بھی نہیں رکھناچاہتے کہ ہمیں کونسی وزارت دی جائے لیکن ایسی کوئی وزارت ہوں کہ لوگوں کیلئے کچھ کرسکے گزشتہ روز اسمبلی اجلاس میں جانے سے پہلے ایک اور واقعہ ہوا میاں شہبازشریف ہمارے لئے قابل احترام ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلقات اچھے رہے لیکن بلوچستان کے معاملات پر ہم نے کوئی کمپرومائز کیا ہے۔

اور نہ ہی کرینگے گزشتہ روز اسمبلی سے واک آئوٹ کے بعد وزیراعظم صاحب کا فون آیا تو ہم ان سے ملنے چلے گئے انہوں نے زور دیاکہ ہم انکوائری کرائیںگے آپ کابینہ میں آئیں ،انہوں نے کہاکہ ہمارے علاقوں کے رسم ورواج اس شش وپنج میں ہے کہ جو لوگ زخمی ہوئے ہیں وہ زندہ رہیںگے یا مارے جائیںگے ،وہ خون اب تک خشک نہیں ہوا ہم سے ہمدردی کرے یا لوگ ہمیں مبارکباد دینے آئیں ،انہوں نے کہاکہ اگر نوکنڈی اور چاغی واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کی جائے اور پہلے ڈرائیور کو قتل کیاگیا پھر نوکنڈی اور پھر چاغی میں فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے ۔

قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئیں ،وزیراعظم نے انکوائری کی یقین دہانی کرائی کل ہم نے وزیراعظم پر واضح کیاتھاکہ اگر ایک دن جوڈیشل کمیشن تشکیل پاتاہے تودوسرے دن ہمارے ساتھی حلف لیںگے لیکن اگر ایک مہینہ بھی لگ جائیں تو ہمیں کابینہ میں آنے میں کوئی جلدی نہیں ہے ۔پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانے میں ہمارا کردار تھا اور اس حکومت کو بنانے میں ہمارا کردار ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک سال میں بلوچستان کے مسائل حل ہوں لیکن ایک شروعات ہوں سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بلوچستان اس ملک کا حصہ ہے صوبہ ہے تو اس کے ساتھ بھی اسی طرح برتائو کیاجائے یا پھر ڈکلیئر کیاجائے کہ یہ صوبہ نہیں بلکہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے ہم قسم اٹھا کرکہیںگے کہ ہم نہ پھر آپ سے کچھ مانگیں نہ اور ہی کوئی امید رکھیںگے ،وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے عمران خان کے ساتھ دو سال گزارے ان کا رویہ روزل اول سے بہتری کی طرف دکھائی نہیں دے رہاایک کمیٹی جو بنائی گئی تھی اس کااجلاس تک نہیں بلایاگیا ،پہلے بھی یہاں حکومتوں نے وہ حق نہیں دیا جو بلوچستان کا حق ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اگر اب بھی بلوچستان کے لوگوں کو ان کے حقوق نہ ملے آج بھی ہم جب پارلیمنٹ میں آرہے ہیں توہمیں لوگ غدار کہتے ہیں اس غداری کاالزام کب تک ہم اپنے اوپر لیتے رہیںگے ،سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں اس کے ذمہ دار وہ حکومتیں بھی ہیں جو حکومتیں رہ چکی ہیں فرق الیکٹڈ وسلیکٹڈ کاہے یہ الیکٹڈ حکومت ہے جس کی وجہ سے ان سے زیادہ امیدیں ہیں سلیکٹڈ کا صرف ہم نہیں دنیا کہہ رہی تھی لیکن کوئی شک نہیں کہ اس کو لانے میں بھی حصہ دار تھے جو معاہدے کئے تھے ان پر من وعن دستخط کئے تھے صوبائی حکومت ہمیشہ بے بس رہی ہے جب وفاق بے بس ہوں تو پھر صوبائی حکومت کیا کریگی جب تک بلوچستان کو یہ باور کرانے کی کوشش نہ کی جائے کہ الیکشن سے لیکر ایک تو یہ کہ بلوچستان میں پہلی اینٹ جو رکھی جاتی ہے وہ ٹیڑھی رکھی جاتی ہے مرکز میں اب سلیکٹڈ کا لفظ استعمال ہورہاہے بلوچستان میں روز اول سے یہ لفظ استعمال ہورہاہے جو شخص یونین کونسلر کی نشست نہیں جیت سکتا وہ اسمبلی میں لایاجاتاہے ،سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بلوچستان میں ہم اپوزیشن میں بیٹھے ہیں۔

جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتمادلانے میں ہم شامل تھے اب بھی بلوچستان میں باپ پارٹی کی حکومت ہے اگر وہ تبدیلی لاناچاہے جمعیت،بی این پی اور پشتونخوا بیٹھ کر یہ فیصلہ کریگی کہ بہترتبدیلی آنے کی امید رکھیں یا بدترتبدیلی آنے کی امیدرکھیں ،مہمات جاری ہے وہ جو بے روزگار ہوگئے ہیں وہ بھی تھوڑے ایکٹو ہوگئے ہیں اور جو برسرروزگار آناچاہتے ہیں وہ بھی ایکٹو ہوگئے ہیں اب یہ اپوزیشن جماعتوں پر منحصر کررہاہے اگر اپوزیشن چاہے توشاید تبدیلی آئیں ہم چاہتے ہیں اگر جام کمال کی حکومت سے بہتر کوئی آسکتاہے لیکن ابھی تک کوئی چانسز نظرنہیں آرہی یہ حکومت آئی یہ بہترتو نہیں بلکہ بدتر نظرآرہی ہے لیکن بدتری کی طرف ہم نہیں جارہے ،تبدیلی کو لانے میں ہم کیا حاصل کرینگے اس کو بھی دیکھناہوگا۔انہوں نے کہاکہ متحدہ اپوزیشن میں اب تک چیئرمین سینیٹ کا مسئلہ زیر بحث نہیں آیا۔

اگر آجائیں توپھر ہم اپنی رائے دیںگے ۔پارٹیوں کی طرف سے ایسا کوئی آفر نہیں آیا لیکن رومرز ہم نے سنے تھے جس پر ہم یقین نہیں رکھتے انہوں نے کہاکہ 2009ء میں جب آصف علی زرداری صدر بن رہے تھے نوازشریف میرے والد کے پاس گئے تھے کہ آپ صدر بنے ہم آپ کو سپورٹ کرینگے جس پر انہوں نے انکار کیا اور پھر میاں صاحب نے کہاکہ سرداراخترکو اجازت دیں جس پر میرے والد نے جواب دیاکہ ان کو اجازت ہے لیکن انہیں پھر میرے گھر میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی ،اب بھی اگر میرے والد نہیں ہے لیکن مجھے تو ان کے قبر پر جاناہے مجھے اگر امریکی صدارت کاآفرآئے تومیری پہلی ترجیح بلوچستان رہے گی ،انہوں نے کہاکہ جن کو آج دہشتگرد قراردیاجارہاہے کل کو یہ ان کے مجاہدین نہیں تھے طالبان کو بنانے کون تھے۔

میں نہیں جنرل مشرف کی کتاب پڑھ کر دیکھیں ہم نہیں کہتے اگر ہم کہیںگے تو یہ غدار ٹھہرائے جائیںگے ، انہوں نے کہاکہ جہاں پر اس طرح کے بے قابومونسٹرز بنیںگے تووہ دوسروں پر حملہ آور ہونے کے بعد یہ نہ بھولیں کہ ان کے توپوں کا رخ ہمیشہ آپ کی طرف رہے گا کل آپ نے جن کو سپورٹ کرکے 2018ء کے الیکشن کو منتخب کرائے آج اسمبلیوں سے بھی وہ لیکر رہیںگے آزادی کا نعرہ کس کیلئے لگارہے ہیں وہ برطانیہ سے آزادی چاہتے ہیں کس سے آزادی چاہتے ہیں یہ لوگ انہی سے آزادی چاہتے ہیں بقول چوہدری پرویز الہیٰ کے جنہوں نے پیس چینج کرایاتھا یہ بلوچستان یا سندھ سے توآزادی نہیں چاہتے یہ غدار نہیں ہونگے ان کے پاس پنجاب میں جوپانچ دریا بہہ رہے ہیں اس میں سے ڈوبکی لگا کر یہ صاف ہوجائیںگے غداری بلوچوں اور قوم پرستوں کیلئے ہوگی ،اگر ہماری نتیں صاف ہوئی اور اتحادیوں کو اعتماد میں لیکر آگے بڑھیں کیونکہ بداعتمادی کی فضا سے ایک خاندان بھی نہیں چل پاتا۔