کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بی این پی کے 4ووٹوں نے عمران خان کو وزیراعظم ہائوس سے بنی گالہ پہنچادیا،ہمارے روایات ،ثقافت اور سیاست میںغلیظ زبان یا بدزبانی کی اجازت نہیںاور نہ ہی کبھی برداشت کیاجائیگا
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ہر کارکن کا بلوچ قوم کے ساتھ وعدہ ہے کہ اس وقت تک چھین سے نہیں بیٹھیںگے جب تک ان وارثوں کو ان کے بچے واپس نہیں ملتے،بی این پی کے ووٹ چار لیکن وزن بہت زیادہ ہے ،مائوں بہنوں کی دعائیں ،بزرگوں کی عزتیں ہیں ان چارووٹوں میں بلوچستان کی بقاء اور عزت ہے ،بی این پی کے 10ووٹوں کے وزن کا پتہ بھی جام کمال کو چل گیاہوگا آج کبھی کسی کے درتو کبھی دربدر پھر رہاہے ۔بلوچستان کی قدر کرنے والے کو ایک ہاتھ سے نہیں دونوں ہاتھ سلام اگر کوئی بلوچستان سے دشمنی کرے گا تو ہمارا ان کے آبائو اجداد سے بھی دشمنی ہوگا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے بی این پی کے حاجی باسط لہڑی کی جانب سے دئیے گئے افطار ڈنر کے بعد کارکنوں سے اظہار خیال کرتے ہ وئے کیا۔ اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل وپارلیمانی لیڈر ملک نصیراحمدشاہوانی ،عبدالرئوف مینگل ،موسیٰ جان بلوچ، ضلع کوئٹہ کے صدر غلام نبی مری ،رکن اسمبلی ثناء بلوچ ودیگر بھی موجود تھے ۔
سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا جن نکات پر اتحاد ہوا تھا جن میں سرفہرست لاپتہ افراد کی بازیابی تھی اس وقت بھی پی ٹی آئی نے اچھی سے اچھی وزارت دینے کی آفر کی لیکن ہمارے لئے وزارتوں سے اہم لاپتہ افراد کامسئلہ ہے یہ بات ہم نے ان ایوانوں میں بھی کہی ہے ہم نے جلسوں میں بھی کہی ہے اور لاپتہ افراد کے کیمپ میں بھی کہی ہے ہمارے نزدیک اس ماں کے آنکھ سے ٹپکتاہوا آنسو کے مقابلے میں نہ وزارت قبول نہ ہی پاکستان کی حکمرانی قبول ہے ،ہم اس درد کو محسوس کرتے ہیں ہمارے اپنے کارکن لاپتہ ہیں جن کے گھر سے آج تک ایک مرغی تک نہیں گئی انہیں اس درد کااحساس نہیں ہوگا، ہمیں ان نعروں ،ان مائوں بہنوں کی پکار کانوں میں گونج رہی ہے بی این پی ،سرداراخترمینگل اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ہر کارکن کا بلوچ قوم کے ساتھ وعدہ ہے کہ اس وقت تک چھین سے نہیں بیٹھیںگے جب تک ان وارثوں کو ان کے بچے واپس نہیں ملتے ،پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اپنے آپ کو صادق اور امین کہتا تھا کیا اس کو صادق اور امین کہتے ہیں وزارت عظمیٰ کیلئے آپ نے بی این پی سے ووٹ لئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیلئے ووٹ لئے ،صدر کیلئے ووٹ لئے اور ووٹ لینے کے بعد جب اکثریت حاصل کی تو نجی محفلوں اور ٹی وی اینکرز کے سامنے کہتے تھے کہ اب کے ووٹ کی حیثیت نہیں ہمیں اور ووٹ مل گئے ہیں اب تمہیں پتہ چلا کہ بی این پی کے ووٹوں کی حیثیت کیاہے
جس نے عمران خان کو وزیراعظم ہائوس سے بنی گالہ تک پہنچا دیاانہوں نے کہاکہ بلوچستان کی سیاست اور بی این پی کی سیاست میں گالی گلوچ کبھی نہیں ہواہے اور نہ ہی اس کو برداشت کرینگے ہم نے اپنے دشمنوں کی بھی عزت کی ہے الیکشن میں ایک دوسرے کے مخالف الیکشن لڑا ہے ایک دوسرے کے خلاف تقاریر کیںلیکن بدزبانی کبھی بھی استعمال نہیں کی ہم پڑھے لکھے نہیں ہے نہ ہی ہم نے اسلام آباد کے یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لی ہیںنہ ہی اکسفورڈ سے ڈگری لی ہے لیکن ہمارے آبائو اجداد نے جو چیز ہمیں سکھائی ہے وہ ادب اور احترام ہے آج بھی ہمارے مخالفین کے خلاف اگر الفاظ کاچنائو غلط ہوتاہے تو میں منع کرتاہوں کہ یہ ہماری روایات نہیں ہے ہم لوگ گلی کوچوں میں وہ زبان استعمال نہیں کرتے جو پاکستان کے مقدس ایوان کے ارکان استعمال کرتے ہیں ،جہاں خواتین اور بچے بزرگ بیٹھے رہتے ہیں ان کے سامنے اس طرح کی غلیظ زبان استعمال کرنا قابل افسوس ہے وہ لوگ جو جلسہ عام میں جو الفاظ استعمال کررہے ہیں ہم ایک دوسرے کے کانوں میں بھی نہیں بول سکتے کیونکہ ہماری سیاست آج کی نہیں ہے ہم صدیوں سے سیاست کررہے ہیں
ثقافت اور روایات ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں ،آج ان روایات اور ثقافت کی وجہ سے ہمارے 4ووٹوں کو جوعزت مل رہی ہے وہ کسی کے 100ووٹوں کو بھی نہیں ملا انہوں نے کہاکہ یہ ووٹ چار ہے لیکن وزن بہت زیادہ ہے ان کی ووٹوں میں مائوں ،بہنوں کی دعائیں ،بزرگوں کی عزتیں ہیں ان چار ووٹوں میں بلوچستان کی بقاء اور عزت ہے اس طرح کی بقاء ،عزت اور وزن شاید ہی کسی پارٹی کے ووٹوں میں ہوں ۔بی این پی کے ورکرز نے ہمیں جو عزت بخشی اور ایوانوں میں بھیجا ہم نے ہمیشہ کوشش کی کہ عوام کے وابستہ امیدوں پر پورا اترتے ہوئے آپ کا سرمخالف کے سامنے نہ جھکائیں ،ہم نہ روزگار دے سکے اور نہ ہی دودھ وشہد کی نہریں بہائی لیکن پاکستان کے ایوانوں میں بلوچستان کا نام آج بی این پی ہی کی وجہ سے گونجتاہے ۔بی این پی کے ممبران بے ایمان نہیں ہے پارٹی نے جو فیصلہ کیا اس پر من وعن عمل کیالوگ مجھ پر تنقید کرتے ہیں کہ اخترمینگل نے ارکان کووزارتوں کیلئے نہیں چھوڑا یہ میرا نہیں بلکہ پارٹی کا فیصلہ ہے
جس کا ہر رکن وکارکن پابند ہیں یہاں وزارتیں کس طرح بٹ رہی تھی سبزی منڈی میں جس طرح آلو کی بوریاں تقسیم ہوتی ہے اسی طرح یہاں وزارتیں دی جارہی تھی ،سینیٹ الیکشن میں ایک ایک ووٹ کروڑوں میں بک رہے تھے لیکن پارٹی نے جب فیصلہ کیاکہ ہم نے کس کو ووٹ دیناہے تو پھر ہمارے ارکان نے پارٹی فیصلے پرلبیک کہا اور کروڑوں روپے کوٹوکر ماردی ،اچھے چھے لوگ بک گئے اس منڈیوں میں بڑے بڑے نواب وسرکار بکے لیکن یہ غریب کے بچے نہیں بکے ،ان دس ووٹوں کا بھی جام کمال کو پتہ چلا کہ اس میں کتنا وزن ہے آج وہ دربدر کبھی اس کے درکبھی دربدر گھوم رہاہے انہوں نے کہاکہ ہماری کسی سے دشمنی نہیں ہے لیکن کوئی اگر بلوچستان کی دشمنی کرے گا تو ہماری دشمنی اس کے آبائو اجداد سے بھی ہوگا ،بلوچستان کی قدر کرے گاتو ہم ایک ہاتھ سے نہیں دونوں ہاتھ سے سلیوٹ کرینگے ،لیکن بلوچستان کی عزت نیلام کرنے والے کو جب تک اس جسم میں جان ہے اور ہمارا ایک ورکر بھی زندہ ہے تو کسی کو اپنی سرزمین پر میلی قدم رکھنے کی اجازت نہیں دینگے