|

وقتِ اشاعت :   May 6 – 2022

کراچی:  اینٹی ملیر ایکسپریس وے ایکشن کمیٹی کے رہنما اسلم بلوچ اور دیگر نے عدالت جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف مقامی آبادی کیلئے خطرہ ہے بلکہ شہر کے ماحول پر بھی حملہ ہے۔ ہم اس منصوبے کے خلاف عوامی جدوجہد جاری رکھیں گے۔یہ انہوں نے جمعہ کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے کہی۔ اس موقع اینٹی ملیر ایکسپریس وے ایکشن کمیٹی کے حنیف فراز ، ابوبکر بلوچ۔حفیظ بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے۔رہنما اسلم بلوچ نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کراچی کی ماحولیاتی شہ رگ پر حملہ ا ور عوا م کے 160 ملین ڈالرز کا ضیاع ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام تک کرا چی کے ساتھ ہونے والے بہت بڑے ظلم کی نشاندہی کرنا ہے جس کا اثر اس شہر میں بسنے والے ہر شہری کی صحت ا ور ز ندگی اور جیب پر پڑ رہا ہے ا ور مزید خطرناک حد پر جانے والا ہے۔ ملیر ایکسپریس وے کے براہ راست متاثرین کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں، اربن اسٹیڈیز کے ماہرین ا ور کراچی کے حقوق کے لئے کام کرنے وا لی تنظیمیں شامل ہیں ا ور کراچی کے ماحول ا ور عوا م کے ساتھ اس منصوبے کے تحت ہونے والی زیادتیوں کو آپ کے سامنے پیش کر ناچاہتی ہیں۔ کراچی کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ منصوبہ کراچی کی ماحولیاتی شہ رگ ملیر کی زرعی زمینوں کو کاٹ کر فقط اس لئے تعمیر کیا جا رہا ہے تاکہ حالیہ دنوں ملیر کی زرعی زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضہ کر کے ہاؤسنگ تعمیرات کی قیمت بڑھا سکے۔ اس کا واحدمقصد کراچی کی اشرافیہ کو براہ راست راستہ فراہم کیا جائے۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پاکستان کے گردشی قرضوں میں پھنسنے ا ور مہنگائی و بے روزگاری میں آئے دن ہونے والے اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی ایسے بے مقصد منصوبے ہیں۔ہم نے ملیر کی عوا م ا ور عوامی نمائندوں کے ہمراہ 9 مارچ 202 2 کو ادا رہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی جانب ای آئی اے پر ہونے والی عوامی سماعت میں ناصرف تفصیل سے اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا۔

بلکہ ایک تفصیلی دستاویز بھی جمع کرایا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت سندھ نے عوا م، ملیر کے منتخب نمائندوں ا ور تمام ماحولیاتی و شہری ماہرین کو نظر اندا ز کرتے ہوئے بالخصوص ملیر کی عوا م ا ور کرا چی کے ماحول کو تباہی کی بھٹی میں جھونکنے کے اس منصوبے کا آغاز محض اس لئے کیا کہ اس سے مافیا ا ور سندھ حکومت کے کرپٹ حکام اپنی تجوریاں بھر سکیں۔یہ اسسمنٹ رپورٹ کراچی کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے کہ جس میں نہ تو اس علاقے کے عوا م و منتخب عوامی نمائندوں کی بات کو سنا گیا نہ ہی شہر ی پلاننگ ا ور ماحولیاتی ماہرین کی بات کو سنا گیا۔ یہ بوگس رپورٹ مکمل طور پر ماحولیاتی اثرات کا تخمینہ لگانے سماجی ا ور اقتصادی لاگت لگانے سے قاصر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں بغیر کوئی ٹھوس تجزیہ پیش کئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس ایکسپریس و ے سے یومیہ 9000 گاڑیاں گزرا کریں گی۔ بھوک افلاس ا ور غربت میں ڈوبے اس شہر کی اشرافیہ کو نئے مافیامنصوبوں تک براہ راست راستہ فراہم کرنے کے لئے 160 ملین امریکی ڈالر کا یہ منصوبہ عوا م کے گھروں، فصلوں ا ور ماحول کو قر بان کر کے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہیکہ اس منصوبے کے تحت ہونے والی ماحولیاتی تباہی کا پہلا نشانہ وہی ڈیفنس ا ور کلفٹن کی آبادی ہو گی کیونکہ سطح سمند ربلند ہونے کا سب سے پہلے ان ہی علاقوں پر اثر ہوگاا ور اس و قت یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ گڈاپ و کاٹھور کی آبادیوں پر قبضہ کر کے عالیشان سوسائٹیاں قائم کرنے کے بعد ملیر کی یہ گرین بیلٹ ان آخری چند علاقوں میں سے ہے جو کراچی پر آنے والے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے میں کردا ر ادا کرتی ہے جسے عوا م کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والے 160 ملین ڈالرز مافیا کی جیبوں میں ڈالنے کے لیے بے دردی سے ختم کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں دانستہ طور پر یہ کہا گیا کہ اس علاقے میں پانی کے وسائل محدود ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت ایسے 27 کنویں براہ راست متاثر ہوں گے۔ جو ملیر کی بہت بڑی زرعی اراضی کو پانی فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سے ملیر ندی میں گرنے والی دیگر ندیوں کا بہاؤ بھی متاثر ہوگا جس سے نہ صرف شہر کے بڑے حصے کے لئے پانی کے مسائل بڑھیں گے۔ بلکہ زرعی زمینوں تک پانی کی رسائی ختم ہونے کی وجہ سے فصلیں تباہ، لوگ بے روز گار ا ور زرعی پیدا وا ر کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایک رپورٹ میں118 انواع کی پرجاتیوں کی نشاندہی کی ہے جو ناپید ہو رہے ہیں جبکہ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ ایسی پرجاتیاں ملیر کا حصہ ہیں۔ اس ہی طرح رپورٹ میں پرندوں کی 16 اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ملیر ڈیمپر 176 سے زائد پرندوں کی شناخت ہوئی ہے جس میں سے کئی معدومیت کے قریب ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ منصوبہ 39 کلومیٹر کی جنگلی حیات کی نقل و حرکت میں خلل کاباعث بنے گا۔ جسے رپورٹ میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی ہے۔منصوبے نے اس بات کی نشاندہی تو کی ہے کہ اس علاقے سے تیزی کے ساتھ جنگلی حیات ختم ہو رہی ہے مگر اس بات کا ذکر نہیں کیا۔جسکی وجہ ملیر ایکسپریس وے کی طرح اس حیات کے ا وپر قدم رکھنے والے بڑے منصوبے شامل ہیں اور ا ن ہی منصو بوں کو نوا زنے کے لئے ایکسپریس وے کے ذریعے مزید تباہی کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ملکی قوانین کے حوالے سے بھی اس رپورٹ میں تسلی بخش اندا ز میں کوئی بات نہیں ہوئی کہ ا ن قوانین کی پابندی کرتے ہوئے آخر ماحول کو تباہ کرنے والا یہ منصوبہ کیسے آئینی ا ور قانونی تصور کیا جا سکتا ہے۔ جانور ا ور موسم کا معاملہ تو ایک طرف رپورٹ نے مقامی آبادی پر پڑنے والے اثرات پر بھی بات کرنا گوارا نہیں کیے جبکہ ڈیٹا کے مطابق یہ منصوبہ 1500 سے زائد لوگوں کی رہائش ،210 مستقل مکانات ،66.35 ایکڑ نجی زرعی ا راضی ا ور 49 ایکڑ تعمیرات کو تباہ کرے گا۔ ا س کے علاو ہ کئی مذہبی، تاریخی ا ور آثار قدیمہ کے مقامات بھی اس منصوبے کا نشانہ بنیں گے۔

۔اسلم بلوچ نے کہا کہ کسانوں کے حقوق ا ور قومی و بین الاقوامی قوانین کے حو الے سے بھی یہ رپورٹ مکمل طور پر خاموش ہے ا ور نہ ہی اس رپورٹ میں مقامی ا راکین قومی و صوبائی اسمبلی کے اس خط کا ذکر ہے جو اس منصوبے کے خلاف وزیر اعلی سندھ کو جمع کرایا گیا تھاا ور منصوبے کا راستہ تبدیل کر کے زرعی زمینوں، آبادیوں ا ور چرند پرند و نباتات کوبچانے کی درخواست کی گئی تھی۔ سندھ حکومت کی جانب سے منتخب نمائندوں کی رائے کو نظر اندا ز کرنے ا ور کھلے جھوٹ پر مبنی رپورٹ کو شائع کرنے جس میں زمین کو زرعی ا راضی کے بجائے تجارتی ا راضی لکھا گیا ہے حکومت سندھ کا غیرجمہوری ا ور نوآبادیاتی طرز حکومت ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ سے اس شہر کے لوگ سندھ حکومت سے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس شہر سے نشستیں حاصل کرنے کے باوجود اس شہر کو محض کالونی سمجھا ہے ا ور خاص کر ا ن علاقوں میں جہاں سے و ہ جیتتی رہی ہے بدترین استحصال کا نشانہ بناتے ہوئے مافیا ا ور کرپٹ اور ظالم افسران کے حوالے کر دیا ہے۔ کراچی کے عوا م ملیر ایکسپریس وے کے منصوبے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں ا وراس کے خلاف قانونی ا ور سیاسی مزاحمت کو مزید تیز کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ کراچی کے ماحول ا ور ملیر کی آبادی کی بقا کے لئے ایکسپریس وے کا راستہ تبدیل کرنا ناگزیر ہے ا ور ہم اس کے لیے ہر سطح پر جدوجہد جا ری رکھیں گے۔