بلوچستان پر جبرناروا کی ایک پوری تاریخ ہے، اس کا پس منظر سیاسی اور تسلسل 1948 سے جا ملتا ہے۔
جبر اور زیادتی کے خلاف بلوچ سیاسی مزاحمت کا بھی ایک پس منظر ہے جو آغا عبدالکریم سے شروع ہوکرتاہنوز جاری ہے۔آپ خیر بخش مری کو جدید بلوچ سیاست(سیاسی مزاحمت) کا سرخیل کہہ سکتے ہیں جن کی فکر و نظریہ سے متاثر ہوکر بلوچستان ایک مزاحمتی سیاسی ڈھانچے میں ڈھل گیا۔
بلوچ نفسیات تشکیک، الزامات، بد اعتمادی اور معاملات سے دور رہ کر کام کرنے والوں کے خلاف بولنے کی ایک تاریخ رکھتی ہے یہ عمل 1948 میں ہوا تھا اور 2002 میں شہید چیئرمین کے ساتھ بھی دہرایا گیا۔تشکیک میں مبتلا اس قبیل کے ہاں پارسائی کا مطلب جان کی قیمت ہے جب تک آپ کو اپنے بیانیہ کی وجہ سے مار نہیں دیا جاتا تب تک آپ جو بھی ہیں ریاستی اداروں کے آدمی ہیں۔یہ سیاسی طور پر ناکارہ، عملی طور پر بے کار اور کردار کے لحاظ سے مشکوک قبیل سانحات کا منتظر رہتا ہے۔ یہ کسی رہبر کی شہادت کے بعد اس کے نام کا کلمہ پڑھنے میں سب سے آگے رہتا ہے۔اس ناکارہ و بیکار اور بے عمل گروہ کے پاس کوئی مضبوط سیاسی بیانیہ نہیں یہ ہمیشہ ایک جماعت سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں پناہ ڈھونڈتا پھرتا ہے۔
2000 کی ابتداء سے بلوچستان میں سیاسی مزاحمت ایک نئے رنگ کے ساتھ نموپائی اور پورے صوبے میں پھیل گئی، 2022 تک بلوچستان آگ میں جلتا ،خون میں لال ہوتا رہا اور یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔آگ و خون کے اس دورانیہ میں بلوچ لاپتہ کیے گئے، بلوچ مارے گئے، بلوچ اغوا اور پھر مسخ شدہ حالت میں بازیاب ہوئے یہ تشکیک کے مرض میں مبتلا قبیل مگر کہیں نظر نہ آئی، البتہ اس کی بے جا تنقید اور اس کے دوہرے کردار کو کہیں کہیں مشاہدہ کیا گیا، اس گروہ سے عملی صورت میں کردار ادائیگی کا کہا جاتا تو وہ اپنے لیے غیر جانبدار کے خواب صورت لفظ کا استعمال کیا کرتا حالانکہ جنگ اور غیر جانبدار دو متضاد چیزیں ہیں۔
2010 کے بعد حالات ایسے بنائے گئے کہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی، بنیادی حقوق کیلیے ریلیاں نکالی جاسکتی تھیں نا کوئی اور طرح کی سیاسی سرگرمی کی اجازت تھی۔ جو بولتا وہ لاپتہ ہوتا، اس کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کی جاتی۔ یہ خوف، ڈر اور خون آشام دور تھا، سیاسی جماعتیں چھپ اور عام لوگ سہمے ہوئے تھے، معاشرہ بندوق بردار مسلح جھتوں کے سپرد کیا گیا تھا۔
2013 کے جنرل الیکشن میں ایک ناکام تجربہ اور 2018 کے الیکشن میں باپ نے براہ راست الیکشن لڑ کر اپنی حکومت بنائی تشکیک کے مرض میں مبتلا گروہ کہیں خاموش تو کہیں باپ کا ہمنوا بن گیا۔
2018 کے بعد ایک سانحہ ہوا ایک ایسا سانحہ جس نے بلوچ سماج پر بزور بندوق مسلط سیاسی جمود ختم، ڈر اور خوف کو دور کردیا۔ سانحہ ڈنک جس نے بلوچستان کی سماج کو ہلا کر رکھ دیا، بلوچ سرزمین کی ایک بہادر بیٹی ملک ناز نے اپنی شہادت کے ساتھ ریاست کے چہرے پر سے نقاب اتار دیا۔ سانحہ ڈنک ملک ناز شہید کی 3 سالہ بیٹی برمش کے نام منسوب ایسا ہوا کہ برمش نے بلوچستان کی پوری سیاست کا رخ ہی تبدیل کردیا آج ہر جگہ برمش ہے ہر محلے ہر محاذ اور ہر دلوں میں برمش ہے۔
سانحہ ڈنک میں اپنی جان دے کر ملک ناز نے ڈر اور خوف کی گھٹن زدہ فضا سے سیاسی ماحول کو دوبارہ زندہ کیا، اب بلوچستان ایک بار پھر شہید چیئرمین کے فلسفہ پر کاربند تھا۔ احتجاج، ریلیاں، جلسے، جلوس اور شعور کا ایک نیا دور شروع ہوا، کینیڈا کی یخ سردی میں مادر وطن بانک کی شہادت سیاسی جمود پر گویا ایک سنگ میل تھا جسے بلوچ سماج نے بالآخر عبور کرلیا۔نوجوان بے دریغ جبر کے خلاف سیاسی مزاحمت کا حصہ بننے لگے، دباؤ اور تشدد کے باوجود جلسے جلوس اور ریلیاں ہوتی گئیں۔ اسی جبر کے مارے سیاسی ماحول میں 2020 کے آخر میں مولانا کا ظہور ہوا، ایک تند و تیز آواز، بلوچستان کی آواز، بلوچ کی آواز سربندن کا ماہی گیر مولانا ھدایت الرحمن بلوچ۔ مولانا ھدایت الرحمن بلوچ کا ظہور یونہی حادثاتی نہیں بلکہ ملک ناز اور شہید بانک کی شہادت کے بعد سیاسی بیداری کا نتیجہ تھا۔
مولانا اسی سرزمین سے ہے لامحالہ ایک عام نوجوان کی طرح وہ بھی ان اندوہناک واقعات کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا سو وہ گھٹن زدہ فرسودہ سیاسی سیٹ اپ کو چیلنج کرتے ہوئے یوں نمودار ہوا کہ مسلط کیا گیا بے حس سیاست ہل کر رہ گئی، مولانا نے عوام کو منظم کرنا شروع کردیا، اس نے گوادر سے تاریخی ریلیاں نکال کر نہ صرف مقتدرہ بلکہ ان کے پیرول پر کام کرنے والی سیاست کے نام پر مسلط گروہوں کیلیے بقا کا مسئلہ پیدا کردیا۔وہی سیاسی جماعتیں جو عوام، عوام کے مسائل، سرزمین کے دکھ درد، وسائل کی لوٹ مار سے یکسر لاتعلق مقتدرہ کے ساتھ ساز باز، گٹھ جوڑ اور یاری کرکے باری باری الیکشن جیت کر اقتدار کے مزے لینے کی لت میں مبتلا تھے۔مولانا ھدایت الرحمن کی گونج دار آواز ان کے لیے تازیانہ سے کم نہ تھا۔
انہی سیاسی مداریوں کی سالا سال سیاست اور اقتدار کے باوجود گوادر پیاسا رہا، تربت 54 سینٹی گریڈ کی ریکارڈ گرمی میں بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم رہی، کیا پنجگور کیا لسبیلہ، کیا آواران ،کیا خضدار غرض پورا بلوچستان سیاست کے ان کھلاڑیوں کی وجہ سے پسماندگی، جھالت، غربت کا شکار صحت و تعلیم کی بنیادی ضروریات سے بے بہرا اور ان کی وجہ سے اپنی معدنیات اور ساحل وسائل سے بھی محروم کیا گیا۔ یہ خاموش رہے یہ چھپ اور گنگ بنے کہ کہیں مقتدرہ ناراض نہ ہوجائے کہیں وہ اقتدار میں اپنی باری سے محروم نہ کیے جائیں۔انہی سیاسی مداریوں نے چاغی میں ایٹمی دھماکہ کیے، بلوچستان کو کینسر زدہ کردیا اور پھر اپنے عمل سے لاتعلقی برتی، بلوچ ساحل کا سودا کیا، معاہدات پر دستخط لگائے اور پھر انکار کیا۔انہی کی موجودگی میں گلی گلی، محلے محلے حتیٰ کہ لوگوں کے گھروں، اسکولوں اور ہسپتالوں کی چھتوں پر چیک پوسٹ اور چوکیاں بنائی گئیں، بلوچ پیر و جوان عورت اور بچوں کی تذلیل ہوتی رہی مگر انہیں سانپ سونگھ گیا ،یہ مہر بہ لب رہے اور اگلے انتخابات میں اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے مقتدرہ کو نہیں بلکہ دراصل انہی بے حس سیاست کاروں کو چیلنج کیا تبھی یہ پکار اٹھے۔ چیخنے لگے، الزام تراشیاں شروع کیں۔مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کو ایجنٹ، آلہ کار، پیرول زدہ اداروں کا آدمی اور پتہ نہیں کیا کیا کہا گیا اور کہا جارہا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کیا کہا صرف یہ کہ بلوچ کی تذلیل پر آواز اٹھائی، جبر کے خلاف لوگوں کو منظم کیا، تشدد کو چیلنج کیا، سرکاری اور سرکاری حمایت یافتہ بندوق برداروں کی زیادتیوں کے خلاف للکار بلند کی، بلوچیت کا پاس کیا، بلوچ مزاحمت کی روایات کو زندہ رکھا۔مولانا جب اور جہاں جاتے ہیں جس کسی چیک پوسٹ اور چوکی پر بلوچ تذلیل کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو ان کے ساتھی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں، منٹوں میں یہ ویڈیو وائرل ہوتی گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔تشکیک زدہ گروہ یہ دیکھ کر جل جاتی ہے، کچھ نہیں سوجھتا تو الزام تراشتی ہے کہ یہ پری پلان تھا، مولانا کو فوجیوں سے تلخ لہجہ اختیار کرتے آخر گولی کیوں ماری نہیں گئی، یہ بے عمل گروہ پروپیگنڈہ کرتی ہے کہ مولانا کو آخر گرفتار، اغوا یا قتل کیوں نہیں کیا جاتا اور پھر خود کو تسلی دے کر کہتے ہیں کہ مولانا ایجنٹ اور اپنا بندہ ہے اس لیے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔اصل میں یہ گروہ جو مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہے مقتدرہ کے پیرول کا اتنا عادی ہے کہ ان کے نزدیک ہر آواز اٹھانے والے پر قتل واجب ہے جو آواز اٹھاکر زندہ ہے وہ ایجنٹ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ انہی گروہوں کی سیاسی بقا کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، مولانا الیکشن جیتیں یا ہاریں یہ بلوچ کا دردسر نہیں اور نہ ایسا امکان ہے کہ سالوں کے وفاداروں کو ایک عام ماہی گیر کے مقابلے میں شکست سے دوچار کیا جائے۔ مگر مولانا ہدایت الرحمن بلوچ موجودہ وقت کی سیاست میں بلوچ اور بلوچستان کی توانا آواز ہیں ان پر الزام لگانا چاہیں لگادیں لیکن بلوچ بائیس سالہ تلخ تجربات کے بعد اس قابل ہے کہ سوداگروں کو پہچان سکے، جب کبھی بلوچ کو احساس ہوا کہ مولانا ایجنٹ ہے مولانا بکا ہوا ہے مولانا پیرول زدہ ہے تو وہ اپنا فیصلہ کرتے دیر نہیں لگائے گا بلکہ مولانا کیا ان سے بڑوں کو بھی آسمان سے پاتال میں پھینک دے گا۔