انسداد دہشت گردی مکران کی خصوصی عدالت کے جج عبدالصبور مینگل نے سی ٹی ڈی کے زریعے ہوشاپ سے زیر حراست خاتون نورجان بلوچ کی پانچ لاکھ روپے کی دو تصدیقی ضمانت منظور کرکے ان کی رہائی کے احکامات جاری کردیے۔
نورجان بلوچ کے کیس میں سنیئر وکیل سابق صدر کیچ بار ایسوسی ایشن جاڈین دشتی اور سابق ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان ناظم الدین ایڈوکیٹ کی سربراہی میں وکلا کی ٹیم نے چار دن قبل ضمانت کی درخواست عدالت کو پیش کی تھی۔
ہفتے کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے فیصلہ سنانے کے بجائے درخواست ضمانت پر فیصلہ آج پیر کے لیے مقرر کی تھی۔
ضمانت منظور ہونے کے بعد عدالت کے احاطہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نورجان بلوچ کے وکیل جاڈین دشتی ایڈوکیٹ نے کہا کہ آئین پاکستان کے مطابق ضمانت ہر ملزم کا حق ہے، جب تک عدالت میں کسی پر جرم ثابت نہیں ہوتا وہ مجرم نہیں ہے، انہوں نے کہاکہ نورجان بلوچ کی ضمانت کےلیے وکلا نے کیس کی تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا چونکہ کیس کمزور تھی اور لگائے گئے الزامات میں حقیقت نہیں تھی اس لیے عدالت نے ضمانت منظور کرلی۔ اس موقع پر نورجان بلوچ کے شوھر فضل کریم نے وکلا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس کیس میں وکلاء نے ہمارے ساتھ جو تعاون کیا ہم ان کے شکر گزار ہیں، انہوں نے کہاکہ میری بیوی پر غلط الزامات لگاکر انہیں حراست میں لیا گیا جس سے ہمارے پورے خاندان کو سخت کوفت اور زہنی ازیت میں مبتلا کیا گیا میرے بچوں پر ماں کی غیر گرفتاری کا گہرا اثر پڑا ہے، انہوں نے آپ ی شریک حیات کی رہائی میں آواز اٹھانے پر تمام شھریوں اور میڈیا کا بھی شکریہ ادا کیا۔
سی ٹی ڈی نے 16 مئی کی رات ہوشاپ میں چھاپہ کے دوران نورجان بلوچ اور فضل علی محمد نامی شخص کو حراست میں لینے کے بعد ان پر ممکنہ خود کش حملے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا تھا۔
نورجان بلوچ کی گرفتاری کے خلاف ان کے فیملی اور علاقہ مکینوں نے مسلسل پانچ دنوں تک ہوشاپ میں ایم ایٹ شاہراہ پر دھرنا دے کر سی پیک روٹ کو بلاک کردیا تھا۔
نورجان بلوچ کی رہائی کے لیے حق دو تحریک کیچ نے ڈی بلوچ پوائنٹ پر ایم ایٹ شاہراہ کو گزشتہ چار دنوں سے بلاک کررکھا ہے۔
اے ٹی سی تربت نے نورجان بلوچ کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
وقتِ اشاعت : May 23 – 2022