|

وقتِ اشاعت :   May 24 – 2022

کوئٹہ : بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان پارٹی صدر کے فیصلے کے پابند ہیں اگر ارکان پارٹی صدر کے فیصلے پر عملدآمد نہیں کرتے تو آئین کے آرٹیکل 63-Aکے تحت کاروائی کی جائیگی،

پی ڈی ایم کی جماعتوں سے امید ہے کہ وہ اپنا قول پورا کریں گی، الیکشن کمیشن کے مطابق میں پارٹی صدر ہوں کسی کے کہنے سے پارٹی صدرتبدیل نہیں ہوسکتا، سردار اختر مینگل سے بھی امید ہے کہ وہ قدوس بزنجو کے نہ لانے کے گناہ پر اپنی پارٹی پوزیشن کو واضح کریں گے

، وزیراعلیٰ کا امیدوار نہیں جو بھی فیصلہ ہوگا تمام جماعتوں کے ساتھ ملکر کریں گے، یہ بات انہوں نے منگل کو بی اے پی کے رہنماء رکن صوبائی اسمبلی میر سلیم کھوسہ کی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی اس موقع پر ارکان اسمبلی میر ظہور بلیدی، اصغر خان اچکزئی، میر عارف جان محمد حسنی، مٹھا خان کاکڑ،سابق صوبائی وزیر پرنس احمد علی بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے، سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد پر پیش رفت ہورہی ہے

جب میرے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو اس کی نوعیت ذاتی تھی کہ جام کمال لوگوں سے کم ملتے ہیں اس وقت کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ صوبے میں امن وامان خراب ہے، کرپشن ہورہی ہے، ارکان اسمبلی کو اپنی اسکیمات کے لئے وزراء کو نوازنا پڑ رہا ہے صوبے میں اس وقت کرپشن، ابتر حکمرانی ہے سینئر وزیر ظہور بلیدی نے بھی حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے استعفیٰ دیا ہمارا صوبے کے وسیع ترمفاد کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے آج بھی ہمارے دوست ہمارے ساتھ کھڑے ہیں ہم نے کسی پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا ہم اقتدار کے لئے یہ سب کچھ نہیں کر رہے اگر اقتدار کا شوق ہوتا تو ہم وزیرہوتے اور اس سے اچھی حکومت جس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں نہیں ملتی

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے ایک پارٹی صدر کے طور پر موقف ضرور پیش کریں گے صوبے میں اہم معاملات ہوں اور وزیراعلیٰ صوبے میں موجود نہ ہوں لوگ آفتوں، امن و امان کی صورتحال سے دوچار تھے وزیراعلیٰ عد م اعتماد کی تحریک کی وجہ سے کوئٹہ آئے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں میں نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر لوگ خوش نہیں ہیں تو میں عہدہ چھوڑنے کے لئے تیار ہوں تاہم دوستوں نے اصرار کیا تھا

کہ میں عہدہ نہ چھوڑوں چار لوگ اکھٹے ہوکر پارٹی صدر تبدیلی نہیں کر سکتے یہ فیصلہ جنرل کونسل نے کیا تھا جس کے تحت میں آج بھی صدر کے طور پر قائم ہوں قدوس بزنجوپارلیمانی لیڈر ضرور ہیں مگر وہ پارٹی صدر نہیں ہیں وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے فیصلے کر رہے ہیں جو کہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے انہیں اپنے اقدامات واپس لینے چاہیئں وزیراعلیٰ پارٹی موقف سے متعلق ہدایات جاری نہیں کر سکتے انہوں نے پارٹی صدر کو بھی نوٹس کردیا کہ صدر بھی انکے فیصلے کے پابند ہے انہوں نے کہا کہ فیصلہ کل واضح ہو جائیگا میرے بی اے پی کے ارکان سے درخواست ہے کہ خدارا وہ رسک نہ لیں اور اگر وہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی کاروائی نہیں ہوگی تو پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جانب سے لکھا گیا جس پر کاروائی ہوئی یہ ہو کہ ہماری پارٹی کو ایک اور نقصان اٹھانا پڑے اور اگر ڈسپلن پورا نہ ہوا تو مجبوا ً الیکشن کمیشن کو خط لکھنا پڑیگا ہمارے ارکان تحریک عدم اعتماد پیش ہونے اور اس پر ووٹنگ کے دوران موجود ہونگے

انہوں نے کہا کہ ارکان تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنائیں ہم بیٹھ کر مشترکہ فیصلہ کر یں گے میں واضح کر رہاہوں کہ اقتدار کی ریس میں شامل نہیں ہوں ارکان آئیں ہم اتحادیوں اور اپوزیشن کے ساتھ ملکر بہتر فیصلہ کریں گے جام کمال خان نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع سمیت دیگر جماعتوں کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں ہمار ا موقف واضح ہے کہ ہم نے وفاق میں تبدیلی کے لئے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی میں ساتھ دینے کا یک نکاتی ایجنڈا رکھا تھا ہم چاہتے تو ایم کیو ایم کی طرح معاہدہ بھی کر سکتے تھے مگر ہم نے حکومت کی تبدیلی کو سامنے رکھا جس پر میاں شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن سے بھی بات ہوئی تھی اور اسی پہرائے میں یہ قدم لیا گیا مولانا واسع اپنی جماعت سے بات کر رہے ہیں آج یا کل تک چیزیں واضح ہو جائیں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور عوامی نیشنل پارٹی بھی ہمارے ساتھ ہیں ہماری کوشش ہے کہ بی این پی بھی موقف سامنے لائے جب میں بطور وزیراعلیٰ ہٹا تھا تو سردار اختر مینگل نے کہا تھا

کہ وہ جام کمال کو ہٹانے کے ثواب میں شامل تھے اور قدوس بزنجو کو لانے کے گنا ہ میں شامل نہیں تھے اب جب بلوچستان کے نمائندوں نے موقف اپنایا ہے کہ گناہ کا ازالہ ہواور قدوس بزنجو وزیراعلیٰ نہ ہوں یہ انکی پارٹی کے لئے بھی اچھا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کامیابی اور ناکامی سیاست کا حصہ ہے ہم اپنے موقف پر قائم ہیں ایک سوال کے جواب میں جام کمال خان نے کہا کہ ہم اپنے قول کے پابند ہیں ہم نے اپنی کمٹمنٹ پوری کی ہے اور امید ہے ہم سے کی گئی کمٹمنٹ پوری ہوگی اگر سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ہمارا مفاد ہے تو وہ جماعتیں ہمیں ہٹا کر جو بھی فیصلہ کریں

ہمیں قبول ہوگا انہوں نے کہاکہ صادق سنجرانی سمیت سینیٹ کے دیگر ارکان آزاد ہیں اس وقت وزیراعلیٰ قدوس بزنجو اپنی سیٹ بچانے میں مصروف ہیں اور وہ ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں انکے خلاف جن ارکان نے دستخط کئے انکے خلاف انتقامی کاروائی کی گئی انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پارٹی صدر میں ہوں قانون کسی سینیٹر یا اسمبلی رکن کی نہیں سنے گا ہم نے نوٹس جاری کردہ ہے جس میں واضح ہدایت کی ہیں اگر اس پر عملدآمد نہیں ہوتا تو آئین کے آرٹیکل63Aکے تحت کاروائی کی جائیگی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر ملک سکندر نے واضح کیا ہے

کہ اپنا موقف پارٹی قیادت کے سامنے رکھیں گے انہیں انکی پارٹی قیادت جو کہے گی وہ عملدآمد کریں گے انہوں نے مزید کہا کہ قدوس بزنجو کے ساتھ لوگ اس لئے ہیں کیونکہ وہ وزیراعلیٰ ہیں جو شخص اپنے حلقے میں بھی چار سال سے نہیں گیا ہو انہیں صوبے اور عوام سے کیا دلچسپی ہوگی اگر زیادہ ارکان ہمارے خلاف بھی آتے ہیں

قانون اپنے استعمال میں آئیگا اور قانو ن واضح ہے کہ پارٹی صدر کی ہدایت پر عملدآمد ہوگا اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا کہ یہاں کی حکومت کو پیسے کے دم پر چندٹھیکیداروں کی مدد سے گرایا گیا ہم ذاتی مفادات یا حکومت کے لئے نہیں ہیں

بلکہ بلوچستان کی بہتری کے لئے اکھٹے ہیں صوبے میں کرپشن کی انتہا ہوگئی ہے صوبے میں لوگ مر رہے ہیں جو پیسے پارلیمنٹرینز پر استعمال ہورہے ہیں ان پیسوں کو عوام کی بہتری، ڈیرہ بگٹی کے لوگوں، شیرانی کے جنگلات کی آگ کو بھجانے کے لئے استعمال کئے جائیں انہوں نے کہا کہ ہم پر امید ہیں کہ وفاق کی طرز پر بلوچستان میں بھی تبدیلی آئیگی اور بی اے پی کے چارووٹوں کے لئے کی گئی کمٹمنٹ کو پی ڈی ایم کی جماعتیں پوری کریں گی انہوں نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کسی کا ذاتی نہیں بلکہ پارٹی کا ہے اسمبلی اجلاس میں تمام صورتحال واضح ہو جائیگی پارٹی ایک پیج پر ہے اور تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریگی