|

وقتِ اشاعت :   June 15 – 2022

سعید نے ایک کسان کے گھر میں غربت کی حالت میں آنکھ کھولی لیکن قدرت نے اسے بلا کی ذہانت اور خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہے اس نے جب سے تعلیم کے میدان میں قدم رکھا ہے تب سے ہر کلاس میں اس کی پوزیشن بہتر رہی ہے اس نے بہترین نمبروں سے میٹرک کیا اور پھر اس سے بھی بہترین نمبروں کے ساتھ انٹر کا امتحان پاس کیا۔

وہ ہمیشہ سے ایک متحرک اور پرجوش نوجوان تھا لیکن چند دن پہلے جب وہ مجھ سے ملنے آئے تو اس مرتبہ اس کے چہرے سے عزم و یقین کی بجائے مایوسی جھلک رہی تھی وہ بات بات پہ اپنی غریبی کا ذکر چھیڑتا، میرٹ کی پامالیوں کا ماتم کرتا، رشوت، سفارش اور کرپشن کی داستانیں سنا کر افسردہ لہجے میں کہتا سر غریب چاہے کتنا ہی قابل،محنتی اور لائق ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ ہر کلاس میں پہلی پوزیشن ہی کیوں نہ لیتا ہو ہمارے اس سسٹم میں اس کا آگے بڑھنا بڑا مشکل ہے۔ میں بڑی حیرت اور غور سے سعید جیسے ذہین اور محنتی نوجوان کے مایوسی اور ناامیدی سے بھرے ہوئے الفاظ سن رہا تھا۔

جب وہ اپنی مایوسی سے بھری گفتگو ختم کرکے خاموش ہو گیا تو میں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو سعید! نہ صرف موجودہ دور بلکہ ہر دور میں قابل،ذہین اور عزم و ہمت سے بھرپور نوجوانوں کی زندگیوں میں ایسے واقعات اور حادثات رونما ہوتے ہیں جو انہیں مایوسیوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔اور بعض لوگ ان مایوسیوں کا شکار ہو کر اپنا حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔اور اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔

اور اسی وجہ سے ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔اور وہ پھر پوری زندگی ایک بدحالی کی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اسی معاشرے، ان ہی اندھیروں اور ان ہی حالات میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتے وہ مشکلات کے سمندروں کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔وہ مخالف ہواؤں کو اپنے عزم اور امید سے اپنے لئے موافق بناتے ہیں۔ اور بے پناہ تاریکیوں میں بھی امید کی ایک چھوٹی سی شمع روشن رکھتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو آخر کار کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہہ کر میں تھوڑی دیر کے لئے رکا اور سعید کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لینے لگا میں نے محسوس کیا کہ میری باتوں کا سعید پر اثر ہو رہا ہے اور اس کے بجھے اور تھکے ہوئے چہرے پر ہلکی سی چمک پیدا ہو رہی ہے۔


میں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کیا تم جانتے ہو ہٹلر جو 1933 ء سے 1945 ء تک بلا شرکت غیرے جرمنی کا حکمران تھا۔ اسی ہٹلر کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ نہایت تنگدستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ہٹلر اس دور میں میونخ شہر میں بڑھئی (لکڑی کا کام کرنے والا/ لکڑی سے چیزیں بنانے والا) تھا۔
مسولینی 1925 ء سے 1945 ء تک اٹلی کا مطلق العنان حکمران تھا۔لیکن کیا تم جانتے ہو اسی مسولینی کا باپ ایک لوہار تھا۔ جوزف اسٹالن ولادیمیر لینن کے بعد 1924 ء سے لیکر 1953 ء تک سوویت یونین کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا تھا۔

اسی اسٹالن کا باپ لوگوں کے جوتے پالش کرتا تھا کیونکہ اس کا باپ ایک موچی تھا۔
امریکہ کے سولہویں صدر ابراہام لنکن جو 1861 ء سے لیکر 1865 ء تک امریکہ کا سب سے بیدار مغز حکمران رہا وہی لنکن ایک غریب کسان کی جھونپڑی میں پیدا ہوا تھا۔
تاریخ میں اپنے ریکارڈ میں 1093 ایجادات درج کروانے والے عظیم سائنس دان تھامس ایلوا ایڈیسن نے اپنی زندگی کا آغاز ریل گاڑی میں ایک اخبار فروش لڑکے کے طور پر کیا تھا۔
جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا جس نے سیاہ فام لوگوں کی خاطر 27 سال تک قید کاٹا اور جو اپنی رہائی کے بعد 1994 ء سے لیکر 1999 ء تک جنوبی افریقہ کے صدر رہے ان کے پاس بچپن میں سکول جانے کے لئے کپڑے نہیں تھے۔ اور وہ اپنے گاؤں”قونو” میں اپنے گدھے اور بکریاں چراتا تھا۔
مہاتیر محمد ایک عام سکول ٹیچر کا لڑکا تھا
نپولین بوناپارٹ جو 1804 ء سے لیکر 1815 ء تک فرانس کا شہنشاہ رہا۔اس کا باپ ایک عام وکیل تھا۔
عظیم مسلمان سائنسدان ابو نصر فارابی جنھیں حکمت،فلسفہ،منطق،طبیعات،ریاضی،نجوم،سائنس اور موسیقی جیسے علوم پر دسترس حاصل تھی۔جسے ارسطو کے بعد معلم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی فارابی کے پاس رات کو مطالعے کے لیے چراغ نہیں تھا۔ اور رات کو چوکیدار جو چراغ روشن کرتے وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتا تاکہ اسی روشنی میں اپنا سبق یاد کر لے۔
مصطفی کمال اتاترک جسے ترکوں کا باپ کہا جاتا ہے۔اس کا باپ علی رضا محصول چونگی کے دفتر میں ایک معمولی محرر تھا۔ اور چھوٹی عمر میں اپنے والد کی وفات کے بعد اتاترک خود ہل چلاتا تھا اور اپنے چچا کی بکریاں چراتا تھا۔
میں نے یہاں تک کہہ کر توقف کیا اور محسوس کیا کہ اس کے چہرے پر مایوسی کی جگہ عزم اور امید نے لے لی ہے۔اور میری گفتگو موثر ثابت ہو رہی ہے۔میں نے اس تاثر کو مزید گہرا کرنے کے لیے اس سے کہا تم یہ نہ سمجھنا میں تمہیں صرف پرانے دور کے قصے سنا رہا ہوں۔ ہمارے ارد گرد بھی ایسے بے شمار شخصیات کے کارنامے موجود ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور جدوجہد سے اپنا مستقبل تابناک بنایا۔میں نے اس سے پوچھا تم حکیم محمد سعید شہید کی شخصیت سے تو واقف ہو اس نے صرف بارہ روپے کی رقم سے اپنے ادارے ہمدرد کی بنیاد رکھی تھی اور آج ہمدرد پاکستان کے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔
سید قاسم علی شاہ موجودہ وقت میں پاکستان کے بڑے پبلک اسپیکروں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے پہلے پہل جب اپنے ٹیوشن سینٹر کی بنیاد رکھی تو اس کے ٹیوشن سینٹر میں صرف پانچ ٹوٹی پھوٹی کرسیاں تھیں۔پہلے دن انھوں نے پورا وقت انتظار کیا لیکن کوئی بھی طالب علم اس ٹیوشن سینٹر میں پڑھنے نہیں آیا دوسرے دن ایک طالب علم آگیا پھر اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور آج قاسم علی شاہ ایک برینڈ بن گیا ہے۔
اور لاڑکانہ کے مکینک کا بیٹا زوہیب قریشی نے سی ایس ایس اور کوئٹہ کے ڈرائیور کی بیٹی ماریہ شمعون نے اسسٹنٹ کمشنر کی نشست حاصل کر کے یہ ثابت کردیا کہ اگر انسان میں عزم و ہمت اور محنت و جدوجہد کا جذبہ موجود ہو تو وہ بڑے سے بڑے مشکل کو آسان اور ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔وہ اپنے دکھوں،تکالیف اور پریشانیوں کو سکھ،چین اور آرام میں تبدیل کر سکتا ہے۔وہ گمنامی سے شہرت،ادنی سے اعلی،کم تر سے برتر بن سکتا ہے۔
میں نے بات کو ختم کرتے ہوئے کہا دیکھو سعید اگر ہٹلر،مسولینی،اسٹالن،ایڈیسن،لنکن،منڈیلا، مہاتیر محمد، ابو نصر فارابی،مصطفی کمال اتاترک،حکیم محمد سعید، قاسم علی شاہ،زوہیب قریشی اور ماریہ شمعون سمیت ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ جنہوں نے مشکلات سے لڑکر اپنی دنیا آپ پیدا کی۔اگر یہ بھی اسی طرح حوصلہ ہار بیٹھتے اور اپنے دل و دماغ میں ان ہی باتوں کو بٹھاتے کہ یہاں تو میرٹ کی پامالی ہے،سفارش اور رشوت کا بازار گرم ہے۔ اور غریب کی محنت تو فضول ہے تو دوسرے کروڑوں بلکہ اربوں لوگوں کی طرح ان کی بھی داستان نہیں ہوتی داستانوں میں۔
یہ دنیا عزم اور حوصلے والوں کی ہے اور جو شخص اس دنیا میں اپنے عزم اور حوصلے کو کھو بیٹھتا ہے تو یہ دنیا وقت کے ساتھ ساتھ اس کے نام و نشان کو بھی مٹا دیتا ہے۔
جب میں خاموش ہوگیا تو میں نے دیکھا کہ سعید کے پریشان,مایوس، بجھے اور تھکے ہوئے چہرے پر روشی اور تازگی آگئی تھی۔اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور پر جوش ہو کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور خدا حافظ کہہ کر کمرے سے نکل گیا