|

وقتِ اشاعت :   June 15 – 2022

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل ، میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ میں نے کسی قسم کا سیاسی بیان نہیں دیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں تمام سروسز چیفس نے اپنا مؤقف واضح طور  پر بتادیا تھا، کسی سروس چیف نے یہ نہیں کہا کہ سازش ہوئی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق نیشنل سکیورٹی میٹنگ کا ایجنڈا پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس سے متعلق گزشتہ روز  بھی تفصیلی بات کی تھی۔

میجرجنرل بابرافتخار نے مزید کہا کہ خط کے معاملے پر حکومت جوڈیشل کمیشن یا اور کوئی فورم بنائے تو ادارے تعاون کریں گے۔

خیال رہے کہ آج پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے کہا ہےکہ سیاستدانوں کو سیاسی معاملات آپس میں ڈیل کرنے دینا چاہیے، بار بار سیاسی معاملات کی تشریح ڈی جی آئی ایس پی آر کرنا ضروری نہ سمجھیں تو وہ فوج اور ملک کے لیے اچھا ہوگا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران اسد عمر نے ایک بار پھر مبینہ مراسلے کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ’مراسلے میں پاکستان کو سیدھی سیدھی دھمکی دی جارہی تھی کہ عدم اعتماد کی تحریک جو اس وقت پیش بھی نہیں ہوئی تھی وہ اگر ناکام ہوئی اور عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر فائز  رہے تو پاکستان تنہائی کا شکار ہوگا اور اس کے لیے مشکلات ہوں گی اور اگر تحریک کامیاب ہوگئی تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا، یہ ایک سیدھی سیدھی دھمکی تھی کہ جو ہم چاہتے ہیں وہ کروگے تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا، اگر خودداری اور حقیقی آزادی کی بات کروگے تو تمہارے لیے مشکلات پیدا کی جائیں گی، یہ مراسلے کے حقائق تھے۔‘

سروسز چیف سے متعلق بات ہو تو میرا خیال ہے کہ میں ہی اس کی وضاحت کروں گا

اس معاملے پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل بابرافتخار  نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’میں نے کسی قسم کا سیاسی بیان نہیں دیا، میں نےسروسز چیف کے توسط سے وضاحت دی، سروسز چیف سے متعلق بات ہو تو میرا خیال ہے کہ میں ہی اس کی وضاحت کروں گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سروسز چیفس اور  ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سے واضح کردیا تھا، واضح کردیا تھاکہ سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا، یہ صرف ایک وضاحت تھی اور اس کا سیاست سے تعلق نہیں تھا، نیشنل سکیورٹی کمیٹی (این ایس سی) کی میٹنگ ملک کا اعلیٰ سطح کا فورم ہے، اس میں میں سروسز چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی اپنی اِن پٹ لے کر جاتے ہیں۔

سروسز چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اِن پٹ انٹیلی جنس بیسڈ انفارمیشن ہوتی ہے، ذاتی رائےنہیں

انہوں نے کہا کہ سروسز چیفس اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اِن پٹ انٹیلی جنس بیسڈ انفارمیشن ہوتی ہے، ذاتی رائےنہیں، یہ رائے نہیں تھی انٹیلی جنس بیسڈ انفارمیشن تھی،حقائق دیکھ کر اِن پٹ دی گئی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر  کے مطابق سازش کا لفظ یا ایسی کوئی چیز  این ایس سی میٹنگ اعلامیے میں بھی شامل نہیں کی گئی، یہ رائے نہیں کہی جاسکتی یہ واضح طور  پر  بریف کیا گیا تھا۔

اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن یا کوئی اور فورم جس کا حکومت فیصلہ کرے، ادارے مکمل تعاون کریں گے

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن یا کوئی اور فورم جس کا حکومت فیصلہ کرے، ادارے مکمل تعاون کریں گے، جو کچھ انہیں اداروں سے چاہیے وہ کرکے دیں گے، ایجنسیز  اور  ادارے اپنی ان پٹ ہائی لیول پر پہلے ہی دے چکے ہیں، ایجنسیز اور اداروں نے اپنی ان پٹ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ اعلیٰ سطح پر دی ہے، اسے جیسے بھی وہ اپنی تسلی کیلئے لےجانا چاہتے ہیں یہ ان پر ہے، فیصلہ ہم نے نہیں کرنا، میں نے اپنے ادارے کا مؤقف تفصیل سے بیان کردیا ہے۔