ہم بچپن سے یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان وہ صوبہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اگر حالات اور لوگوں کی طرز زندگی کو دیکھا جائے تو یہ بات بالکل جھوٹ معلوم ہوگا مگر جھوٹ بھی تو نہیں کیونکہ تمام وسائل تو یہاں پر موجود ہیں۔ زمین کے اندرونی وسائل اور نعمتوں کے علاوہ یہاں پر بیرونی وسائل کی بھی کمی نہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقے خشک میوہ جات کی وجہ سے خاصے مشہور ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کے حوالے سے بھی بلوچستان کسی اور صوبے سے پیچھے نہیں۔ کوئٹہ, زیارت اور قلعہ سیف اللہ پھلوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
اگر زیر زمین وسائل کی بات ہو تو پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے بلوچستان کا کردار سب سے نمایاں بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ ملک میں چالیس فیصد گیس کی ضروریات کو بلوچستان کا ایک ہی ضلع ڈیرہ بگٹی پورا کرتا ہے۔ مگر یہاں کے باشندے انتہائی نا مناسب اور مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
گوادر جو کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے ایک باب ِ نو کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس میں بھی بلوچستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ گوادر کے لوگوں کو پینے کے لئے صاف پانی تک میسر نہیں۔ وہاں پرصحت اور تعلیم کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ بلوچستان میں کبھی عوام دوست اور بلوچستان دوست حکومت نہیں رہی۔ یہاں پر اکثر و بیشتر وہی جماعت حکمرانی کرتی رہی جو وفاق میں اقتدار پربراجمان ہو۔ انگنت وسائل کے باوجود یہاں کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ یہ لوگ پتھر کے زمانے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اکثر علاقوں میں لوگ وہی پانی پیتے ہیں جو جانور پیتے ہیں۔ اس طرح کے جوہڑ اور تالاب بیماریوں کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔
اگر چاغی کی بات کریں جہاں پر سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ اسی علاقے میں ایٹمی دھماکے کئے گئے جو پاکستان کی دفاع کا مرکز رہا، ایٹمی تابکاری کی وجہ سے یہاں پر کینسر کا مرض خطر ناک حد تک پھیل چکا مگر 25 سال میں یہاں پر ایک کینسر ہاسپٹل بھی نہیں بنایا جاسکا۔
اسی طرح بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی کوئی ترقیاتی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ چند کلومیٹر سڑک بنانے کے لیے بھی بیسیوں بار بجٹ منظور ہونے کے بعد بھی کام نہیں ہوتا اور مختص بجٹ واپس بھیج دیا جاتا ہے مگر عوام کی فلاح و بہبود کے خرچ نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح اگر ضلع کوہلو کی بات کریں تو مری قبائل سخت بد امنی اور بدحالی کا شکار ہیں۔ کوہلو کے علاقے چمالنگ میں کوئلہ کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں جس سے لاکھوں ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے مگر عوام بے چارے نوابوں اور وڈیروں کے در پر ذلیل ہوتے ہیں۔
شرح نا خواندگی کے لحاظ سے بھی یہی ضلع سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ اس میں شرح خواندگی صرف 11 فیصد ہے جو کہ ایک المیے سے کم نہیں۔
لہذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟
تو ایسا اس لیے ہے کہ یہاں کے لوگ تعلیم سے محروم ہیں، اور ہر علاقے کا اپنا ایک قبائلی طرز حکمرانی ہے۔ نواب، وڈیرے اور رئیس غربا کا خون چوسنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتے۔
غریب کی رزق کو وہ مال غنیمت سمجھتے ہیں۔ ان کے بچے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مقامی لوگوں کے لئے جو علاقائی سطح پر سکولز اور کالجز ہوتے ہیں وہاں پر کوئی تعلیمی نظام ہی نہیں کیونکہ ان اداروں کو یہی وڈیرے اور جاگیردار اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی واضح رہے کہ ان لوگوں کی تعداد بمشکل ایک فیصد ہو گی۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ان کے ترجمان بھی ہوتے ہیں جو غریب اور عام لوگوں میں انکی شہرت اور بڑے پن کا دھاک بٹھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ بلوچستان میں چونکہ قبائلی اور نام نہاد جمہوری حکومت قائم ہے۔ تو یہ دونوں کا آمیزہ مل کر معاشی و معاشرتی انصاف کے حوالے سے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔
موجودہ بجٹ میں بھی بلوچستان کے لئے بمشکل 140 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس بجٹ کا ایک فیصد بھی شاید حقیقی معنوں میں بلوچستان کے عوام پر خرچ کیا جائے۔ اتنے بڑے صوبے میں باقی صوبوں کی نسبت اتنا کم بجٹ مختص کرنا بلوچستان کے عوام کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔اگر اس طرح کے حالات و اقدامات کو فوری طور پر ختم نہ کیاگیا تو حالات مزید دگرگوںہوسکتے ہیں۔ اس لئے ان حالات کو بہتر بنانے کیلئے منظم اور درست سمت کا انتخاب نا گزیر ہے۔ لوگوں کو علاقی وسائل کے تناسب سے ترقی دیا جانا چاہئے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں خصوصی تبدیلی اور بہتری کی ضرورت ہے۔لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ان کے استحصال اور معاشی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنا بے حد ضروری ہے۔مگر اس کے لئے عوام کو بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے نبھانا ہوگا۔ سب سے پہلے تعلیمی ماحول پیدا کرنا ناگزیر ہے جس سے ان کو معاشی اور معاشرتی استحکام ملے گی۔ بلوچستان کے لوگ جفاکش اور محنتی ہیں غیور اور بہادر ہیں مگر ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیل دیئے گئے ہیں جس کا واحد حل تعلیم کے میدان میں ترقی سے مشروط ہے۔اس لئے صوبائی اور وفاقی حکومت کو بلوچستان میں ترقی و خوشحالی لانے کے لیے دیگر مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے خصوصی اقدامات اٹھانے ہونگے۔
بلوچستان پسماندہ کیوں ؟
وقتِ اشاعت : June 17 – 2022