بلوچستان یا مسائلستان!

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

صوبہ بلوچستان کو اگر مسائلستان کا نام دیا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا یا یوں کہا جائے کہ مسائلستان ہی بلوچستان ہے تو یہ دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہوگی۔ یہ صوبہ رقبے اور زمینی اعتبار سے جتنا وسیع و عریض ہے مسائل کے اعتبار سے بھی ویسا ہی کشادہ اور بھرپور ہے ، بلوچستان کا بارڈر ملک کے باقی تینوں صوبوں کے علاوہ دو مسلم برادر ملکوں سے بھی جڑاہوا ہے۔اگرچہ اس صوبے کو ہر طرح کے مسائل اور خطرات درپیش ہیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس میں وسائل اور قدرتی نعمتوں کی بھی کمی نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ یہ وسائل یہ نعمتیں صوبے کے حق میں کبھی فائدہ مند ثابت نہ ہوسکیں جو کہ سب سے بڑا المیہ ہے۔ خیر بات ہورہی تھی بلوچستان یا مسائلستان۔ یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہے کہ بلوچستاں میں امن و مان کی صورتحال بد قسمتی سے کبھی پْرسکون نہیں رہی مگر حالیہ سیلاب کی صورت حال نے بھی سب سے پہلے بلوچستان کا رخ کیا اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی،جن اضلاع میں سیلابی صورتحال سے سب سے زیادہ تباہی پیدا ہوئی ان میں لسبیلہ، کوئٹہ،بولان،سبی ،جعفر آباد،صحبت پور،ڈیرہ بگٹی،کوہلو،بارکھان،لورالائی،قلعہ سیف اللہ،زیات،نوشکی اور چمن سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع شامل ہیں۔ ہلاقتوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے جن کی صحیح تعداد اس لئے بتانا مشکل ہے کہ بلوچستان کے اکثر اضلاع تک میڈیا کی رسائی ہی نہیں۔

بلوچستان پسماندہ کیوں ؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ہم بچپن سے یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان وہ صوبہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اگر حالات اور لوگوں کی طرز زندگی کو دیکھا جائے تو یہ بات بالکل جھوٹ معلوم ہوگا مگر جھوٹ بھی تو نہیں کیونکہ تمام وسائل تو یہاں پر موجود ہیں۔ زمین کے اندرونی وسائل اور نعمتوں کے علاوہ یہاں پر بیرونی وسائل کی بھی کمی نہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقے خشک میوہ جات کی وجہ سے خاصے مشہور ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کے حوالے سے بھی بلوچستان کسی اور صوبے سے پیچھے نہیں۔ کوئٹہ, زیارت اور قلعہ سیف اللہ پھلوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔