|

وقتِ اشاعت :   June 18 – 2022

پاکستان کی کوششیں رنگ لے آئیں، فیٹف کے دیئے گئے اہداف مکمل ہو گئے اور اس طرح پاکستان نے ایک ذمہ دارریاست کا ثبوت دیا۔پاکستان نے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی روایت برقرار رکھی، افواج پاکستان نے حکومت اور اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا۔

پاکستا ن کو بلیک لسٹ کرنے کی بھارتی سازش کو پاک فوج نے ناکام بنایا۔پاکستان نے ٹیرر فنانسنگ کے 27 میں سے27 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا، اسی طرح منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ۔واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف کے دونوں ایکشن پلانزکل ملا کر 34 نکات پر مشتمل تھے، اینٹی منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر مبنی ایکشن پلان کو چار سال میں مکمل کیا گیا۔پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تمام شرائط پوری کر دیں۔جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والے اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی نے کی۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر ڈاکٹر مارکس نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان کو مزید اقدامات کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے،پاکستان نے دونوں ایکشن پلان پر وقت سے پہلے عملدرآمد کیا،2 سال میں 5بارانسداد دہشتگری کے اقدامات کاجائزہ لیا گیا۔ پاکستان نے دہشتگردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ روکنے میں پیشرفت کی،کورونا نے ایف اے ٹی ایف کے اہداف کو متاثر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا جس کے بعد شرائط کی تکمیل کی تصدیق کی جائے گی۔

ایف ٹی ایف اعلامیے کے بعد اپنے بیان میں وزیر مملکت خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ فیٹف ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کر لیا ہے، ہماری کامیابی 4سالوں کی مسلسل محنت کانتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ہم پرعزم ہیں۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جسے 1989 میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے منسلک مالی معاونت کی روک تھام اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کو اس سلسلے میں درپیش خطرات سے بچانے لیے قائم کیا گیا تھا۔ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کیا تھا۔

پاکستان کو 2019 کے آخر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لیے کہا گیا تھا۔اس فہرست میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے رقوم کی فراہمی کو روکنے کے لیے مناسب کوششوں میں ناکام رہے ہوں۔پاکستان اس سے قبل 2012 سے 2015 تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے۔

پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنائے جانے کے بعد پاکستان میں سرمایہ لگانے والے ممالک کی تعداد قدرے کم ہو گئی تھی۔مارچ 2022 میں ہونے والے ریویو میں ٹیررسٹ فنانسنگ کے ادارے نے پاکستان کو گرے لسٹ میں باقی رکھتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ’سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے۔

پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی سنہ 2018 میں دی گئی 27 میں سے 26 سفارشات مکمل کر چکا ہے جبکہ سنہ 2021 میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی جانب سے دیے گئے سات نکات میں سے چھ کو قبل از وقت مکمل کر چکا ہے۔ان دو رہ جانے والی سفارشات میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف عدالتی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات متعارف کروانا باقی تھا۔ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔

جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہوں۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

پاکستان نے متعدد بار الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے پیچھے سیاسی عزائم ہیں مگر فیٹف کی جانب سے ہمیشہ اس تاثر کو رد کیا جاتا رہا ہے۔جون 2021 کے پیرس میں ہونے والے اجلاس کے بعد فیٹف کے حوالے سے دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی تھی جب بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کے گرے لسٹنگ میں ہونے کے پیچھے بھارت کی کوششوں کا ذکر کیا تھا۔اٹھارہ جولائی 2021 کو بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں سے خطاب میں کہا تھا کہ مودی حکومت نے یہ یقینی بنایا ہے کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں رہے۔بہرحال پاکستان کو اگر گرے لسٹ سے نکالا جاتا ہے تب بھی معاملات طے ہونے میں وقت درکار ہو گا اور سات سے آٹھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

گرے لسٹ سے نکلنے کی صورت میں ’ایف اے ٹی ایف ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی تاکہ خود تسلی کر سکیں کہ ان کی سفارشات پر کام مکمل ہو چکا ہے۔پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا سرمایہ کاروں اور دنیا کے لیے ایک مثبت پیغام ہوگا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ لگا سکیں گے۔بہرحال یہ اس وقت تک کی اچھی خبر ہے کہ پاکستان اب گرے لسٹ سے نکل چکا ہے اور اب دنیا کے بیشتر ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرینگے جبکہ پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کرنے میں آسانی ہوگی جس سے اقتصادی حوالے سے ملک مضبوط ہوگااس کے اثرات معیشت پر انتہائی مثبت پڑینگے اور موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے مواقع میسر آئینگے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے مختلف چیلنجز کا سامنا کررہا ہے مگر اب اچھے حالات پیدا ہونے کی امید ہے پاکستان کی ترقی میں یہ عمل کلیدی کردار ادا کرے گا۔