سلطان کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ اتنا بڑا ماہر فلکیات، ریاضی دان اور ستارہ شناس ہے تو کیوں نہ اس کا امتحان لیا جائے۔ اس نے اس ستارہ شناس کو بلایا اور اسے مخاطب کرکے کہا “میں محل کے ان چار دروازوں میں سے کس دروازے سے باہر نکل جاؤں گا” تم علم نجوم اور علم ریاضی کے اصولوں کی مدد سے حساب لگا کر کاغذ پر لکھ دو۔
ستارہ شناس نے کاغذ پر جلدی جلدی حساب لگا کر وہ کاغذ سلطان کے حوالے کردیا۔ جونہی کاغذ بادشاہ کے ہاتھ میں آگیا وہ ہنسا اور اس نے حکم دیا” تیشہ اور پھاوڑا لاکر پانچواں دروازہ محل کے کمرے کی دیوار توڑ کر نکالا جائے” سلطان کا حکم سنتے ہی خدمت گاروں نے فوراً محل کی دیوار توڑ کر پانچواں دروازہ بنا لیا اور سلطان مسکراتا ہوا اس دروازے سے باہر نکل گیا۔سلطان نے ستارہ شناس کو طلب کیا اور کہا تم نے یقیناً ان چار دروازوں میں سے کسی ایک دروازے کے متعلق لکھا ہوگا۔ ستارہ شناس نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا
” آپ پہلے میرا تحریر کیا ہوا کاغذ پڑھ لیں” سلطان نے جب کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھی تو حیرت سے انگشت بدنداں رہ گیا۔ کاغذ پہ لکھا تھا ” آپ چاروں دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے بھی باہر نہیں نکلیں گے بلکہ مشرقی دیوار کو توڑ کر ایک نیا دروازہ نکالا جائے گا اور اسی دروازے سے آپ باہر تشریف لے جائیں گے”
کیا آپ جانتے ہیں یہ ماہر علم نجوم اور دوسری طرف وہ سلطان کون تھے؟
یہ عالم جس کا امتحان لیا گیا مشہور ریاضی دان،مورخ، فاضل طبیب اور ماہر فلکیات ابو ریحان البیرونی تھے اور جس سلطان نے اس کا امتحان لیا وہ مسلم دنیا کے عظیم فاتح سلطان محمود غزنوی تھے۔
یہ واقعہ کوئی فرضی واقعہ، قصہ یا کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جو دور ماضی میں مسلمانوں کی عظیم علمی عظمت، تحقیقی اور تخلیقی جستجو اور مختلف علوم میں کامل مہارت کی شاندار کارناموں کا ایک روشن اور تابناک باب ہے۔ لیکن صد افسوس اب مسلمان اپنے اس عظیم علمی اور تحقیقی ورثے سے انتہائی دور ہوگئے ہیں۔
درج بالا تاریخی واقعہ مسلمانوں کے دور ماضی میں علمی ترقی و عروج کے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ ہے۔تاریخ کی کتابوں میں مختلف علوم کے ماہرین مسلمانوں کے لاتعداد ایسے ایسے واقعات درج ہیں کہ جن کو پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔اور یہ واقعات مختلف علوم میں ان کی کامل مہارت کا واضح ثبوت ہیں۔یہ واقعات ہمیں مسلمانوں کے اس عظیم علمی ترقی اور عروج کے دور کی یاد دلاتے ہیں۔ جب ابن سینا، موسیٰ خوارزمی,ابن الہیثم، جابر بن حیان، ابو نصر فارابی، محمد بن زکریا رازی، ابوالقاسم الزہراوی،یعقوب الکندی،ابن النفیس، امام غزالی، ابن رشد، شیخ سعدی، مولانا رومی،ابن خلدون، اور ابن بطوطہ سمیت کئی مسلمان ماہرین ریاضی، طب، طبیعات(فزکس)، کیمیا (کیمسٹری)حیاتیات (بائیولوجی)، بصریات، فلسفہ،منطق،ادویہ، سرجری،علم ہندسہ،فلکیات، علم نجوم،تاریخ، ادب، تصوف اور سیاست سمیت دیگر کئی علوم کے میدانوں میں اپنے جھنڈے گاڑ رہے تھے۔
600 ء کے دوسرے نصف سے لیکر 1400 ء تک مسلمان مکمل طور پر ان علوم کے فاضل رہے۔ مسلمانوں نے ان علوم پر نئے نئے تجربات اور تحقیقات کر کے انہیں عروج تک پہنچایا۔ 600 ء سے لیکر 1400 ء تک کے اس دور میں جتنے بھی جدید و قدیم علوم رائج تھے ان سب علوم کے مراکز اور بڑی بڑی درسگاہیں بغداد، قرطبہ، قاہرہ، مدینہ، بخارا، رے اور بصرہ سمیت اسلامی سلطنت کے دیگر شہروں میں قائم تھے۔یہ وہ دور تھا جب پوری اسلامی دنیا علم کے نور سے منور تھا جب کہ یورپ اپنے “ڈارک ایج” کی تاریکیوں میں بھٹک رہا تھا۔
لیکن پھر رفتہ رفتہ وقت پلٹا کھاتا گیا۔اور مسلمان ان جدید علوم سے دور ہوتے گئے جن میں ان کے آباؤ اجداد نے ناقابل فراموش کارنامے سر انجام دیئے تھے۔ جبکہ مسلمانوں کے مقابلے میں یورپی اور مغربی اہل علم نے ان قابل ذکر مسلم اہل علم کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا اور ان کتابوں کا لاطینی، عبرانی اور دوسری یورپی اور مغربی زبانوں میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا۔جب ان کتابوں کے ترجمے یورپ میں پہنچے تو وہاں کی تاریک درسگاہوں میں ان علوم کی وجہ سے اجالا ہوگیا۔اور یورپ اپنے “ڈارک ایج” سے نکل کر ترقی و کامیابی کے روشنیوں کی طرف بڑھنے لگا۔اور پھر ان ہی روشنیوں سے گلیلیو، لیووزیر، ڈارون، پاسچر، میری کیوری،نیوٹن،آئن اسٹائن، وغیرہ جیسے نابغہ روزگار شخصیات نکلیں جنہوں نے اپنے علم،تحقیق ،تجربے،جوش و جذبے اور مستقل مزاجی کی بدولت دنیا کی حالت بدل ڈالی۔اور آج ہم دنیا میں جتنی سہولیات دیکھ رہے ہیں اور ان سے مستفید ہورہے ہیں یہ ان ہی سائنسدانوں کی بدولت ممکن ہوئے ہیں۔
مسلمان جو کبھی تمام علوم کی ترویج و ترقی میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور جنہوں نے ارسطو سمیت دیگر یونانی علماء کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرکے نہ صرف ان علوم کو زندہ رکھا بلکہ خود ان سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے علم کے شیدائیوں کے لئے بھی ان علوم کو محفوظ کر دیا جو آج تک باقی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان اپنی علمی جستجو اور کمالات کی وجہ سے پوری دنیا میں علم کے شعبے پر چھائے ہوئے تھے لیکن آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں حالات بالکل اس کے برعکس ہیں۔آج علم کے شعبے میں مسلمانوں کی حالت تو یہ ہے کہ دنیا کی پہلے 50 بہترین جامعات میں کسی بھی مسلم ملک کی کوئی بھی یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔
حال ہی میں جاری ہونے والی کیو ایس(QS) ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کے مطابق دنیا کے پہلے 100 بہترین جامعات میں مسلم ممالک کی صرف ایک یونیورسٹی”یونیورسٹی آف ملایا” (ملائیشیا) شامل ہے جس کا نمبر بھی 70 واں ہے۔
ملائیشیا مسلم ممالک میں وہ واحد ملک ہے جس کی چار یونیورسٹیاں پہلے ایک سو پچاس بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ یعنی ملائیشیا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم میں مسلم ممالک میں سب سے بہترین کام کیا ہے۔ اور یہ ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کے وژن کی وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ انہوں نے اپنے دور میں ملائیشیا میں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کی جانب راغب کرانے کے لیے بہترین اقدامات کیے تھے۔اور یہی وجہ ہے کہ آج ملائیشیا کی یونیورسٹیاں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔مہاتیر محمد کے علاوہ عالم اسلام کے کسی بھی حکمران نے اپنے ممالک میں نوجوانوں کو حصول علم کی جانب راغب کرنے اور اپنے جامعات کی بہتری اور ان کی ترقی میں کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دیا ہے۔
کیو ایس رینکنگ میں پہلے ایک سو پچاس یونیورسٹیوں میں سعودی عرب کی “کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی” کا رینکنگ میں نمبر 106 جبکہ قازقستان کی “الفارابی قازق نیشنل یونیورسٹی” کا نمبر 150 ہے۔ کیو ایس رینکنگ کے مطابق پہلے 150 بہترین یونیورسٹیوں میں مسلم ممالک کی صرف چھ یونیورسٹیاں شامل ہیں جن میں سے چار کا تعلق ملائیشیا،ایک کا سعودی عرب اور ایک کا تعلق قازقستان سے ہے۔
یونیورسٹیوں کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں تو اس وقت پوری دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں 31000 کے قریب چھوٹی بڑی پبلک اور سرکاری یونیورسٹیاں موجود ہیں۔لیکن 57 اسلامی ممالک میں صرف 500 کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں صرف امریکہ میں 5758 اور ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں 8500 یونیورسٹیاں قائم ہیں۔
مسلم ممالک کی اس وقت اوسط تعلیمی شرح پچاس فیصد سے بھی کم ہے اور خواتین میں یہ شرح بمشکل تیس فیصد کے قریب ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق مسلم ممالک میں صرف پانچ یونیورسٹیاں عالمی معیار کی ہیں۔سائنسی علوم سے ہماری دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سائنس کے شعبے میں دو ارب کے قریب مسلمانوں کے پاس 1901 ء سے لیکر 2022 ء تک صرف تین نوبل انعام ہیں۔جن کی تفصیل یہ ہے۔
(1) ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان فزکس(1979)
(2) احمد ذیویل مصر کیمسٹری (1999)
(3) عزیز سنکارا ترکی کیمسٹری (2015)
مسلمانوں کے مقابلے میں یہودیوں کی مجموعی تعداد اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن یہودیوں کے پاس تحقیق،سائنس اور ادب میں 71 نوبل انعام ہیں۔
مسلمانوں کی علمی استعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کنگ فیصل انٹر نیشنل فاؤنڈیشن سعودی عرب جو ایک مسلم آرگنائزیشن ہے اس ادارے کی جانب سے دیئے جانے والے کنگ فیصل ایوارڈ جو کہ میڈیکل،سائنس،تحقیق اور ادب کے شعبوں میں دیا جاتا ہے۔اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کے لیے بمشکل کوئی مسلم امیدوار اس کے معیار پر پورا اترتا ہے۔
کبھی ایک وقت تھا کہ مسلم ممالک میں وسیع پیمانے پر لائبریریاں قائم تھیں۔ اس دور میں تو بغداد اور قرطبہ کے ہر گھر میں ذاتی لائبریریاں موجود تھیں لیکن اگر ہم موجودہ دور میں لائبریریوں کی بات کریں جو فروغ علم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں تو یہاں بھی مسلم ممالک کے پاس کوئی قابل ذکر لائبریری موجود نہیں ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں پہلے نمبر پر کانگریس لائبریری امریکہ ہے جس میں 17 کروڑ کتابیں اور دیگر مطالعے سے متعلق مواد موجود ہے جبکہ دنیا کی چالیس بڑی لائبریریوں میں مسلم ممالک کی واحد لائبریری اسکندریہ لائبریری مصر ہے۔ یہ بھی اس لئے محفوظ ہے کیونکہ یہ دنیا کی سب سے پرانی لائبریری ہے۔ اس میں بھی فقط پانچ لاکھ کتابیں موجود ہیں۔
اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری میں تین لاکھ کے قریب کتابیں ہیں۔ مسلم ممالک میں مجموعی طور پر اتنی لائبریریاں نہیں ہونگی جتنی کے تنہا برطانیہ میں ہیں۔ برطانیہ کی تقریباً پونے سات کروڑ آبادی کے لئے 3667 پبلک لائبریریاں ہیں جبکہ پورے برطانیہ کے 24 ہزار سے زیادہ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کی لائبریریاں اس کے علاوہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی کم و بیش 22کروڑ ہے اور ملک بھر میں پبلک لائبریریز کی تعداد صرف 182ہے۔
دور جدید کو سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے اور اس دور میں تحربہ گاہوں(لیبارٹریز) کو نہایت اہم مقام حاصل ہے لیکن یہاں پر بھی اگر ہم دیکھیں تو پورے 57 اسلامی ممالک میں کوئی بھی قابل ذکر لیبارٹری موجود نہیں ہے۔ زمین پر انسانی زندگیوں میں انقلاب لانے اور چاند پر قدم جمانے کے بعد اب حضرت انسان دوسرے سیاروں پر انسانی زندگی کے آثار ڈھونڈنے کی تگ و دو میں مصروف ہے لیکن بدقسمتی سے اس معاملے میں بھی کسی مسلم ملک نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔
پچھلے کئی دہائیوں سے جو بھی نئی چیز یا ٹیکنالوجی ایجاد ہوتی ہے تو اس کا موجد کوئی ہندو،عیسائی،یہودی یا کوئی غیر مسلم ہی ہوتا ہے۔جب کبھی ان ایجادات کے موجدین میں کسی مسلمان کا نام آتا ہے تو وہ بھی کسی غیر مسلم ملک سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ مسلم ممالک میں انہیں وہ سہولیات دستیاب نہیں ہوتے جو کسی بھی چیز کی ایجاد یا دریافت کے لئے لازمی ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کے علمی عروج سے زوال تک کا سفر چند مہینوں یا چند سالوں میں وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ یہ کئی صدیوں کی علمی غفلت، مسلم ماہرین تعلیم کی علمی تحقیق و جستجو میں کمی،جدید علوم کے فروغ اور حصول میں عدم دلچسپی،مسلم ممالک میں تعلیمی سہولتوں کے فقدان،مسلمانوں کی علم سے دوری، اور مسلم حکمرانوں کے مختلف علوم کے ماہرین کی عدم سرپرستی کی وجہ سے ہوا ہے۔
شاعر نے بالکل بجا طور پر اس بات کی ترجمانی کی ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
(قابل اجمیری)
دور ماضی میں ممکن ہے کہ قوموں کی ترقی کے ذرائع علم کے علاوہ اور بھی ہوں لیکن موجودہ دور میں قوموں کی ترقی علم اور ٹیکنالوجی کے بغیر نا ممکن ہے۔اس دور میں وہی قومیں دنیا کی قیادت کریں گی جن کے پاس بہترین درسگائیں،کتب خانے اور تجربہ گائیں موجود ہوں اور آج امریکہ ،برطانیہ سمیت مغربی اور مشرق بعید کے ممالک اس کی واضح مثال ہیں کہ ان قوموں نے جدید علوم میں ترقی کر کے دنیا کے دیگر اقوام کے مقابلے میں بلند مقام حاصل کیا ہے۔
دانائے راز ڈاکٹر اقبال نے آج سے کئی دہائیاں قبل مغربی ممالک کے علم اور ٹیکنالوجی میں برتری کو واضح طور پر محسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ
قوت افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
“انگریز کی طاقت علم و فن ہے۔
وہی وہ آگ ہے جس سے اس کا چراغ روشن ہے۔